دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
فعل:تینوں زمانوں میں سے کسی ایک زمانے میں چیز کا وجود متحقق ہو، (جیسے:زید بڑاہوکر باقاعدہ کاتب بن گیا تو اس وقت ’’زید کاتب بالفعل‘‘ کہا جائے گا۔) یہ فعلیت، قوت کا مقابل ہے(۱)۔ ملاحظہ:کسی جملے میں بالفعل کا معنیٰ: یہ نسبت کسی زمانے میں پائی گئی ہے، اور بالقوۃ کا معنیٰ: یہ نسبت کسی زمانے میں پائی جا سکتی ہے۔ القول: ھُوَ اللَّفظُ المُرکَّبُ فيْ القَضیَّۃِ المَلفوظَۃِ؛ أوْ المَفھومُ المُرکَّبُ العَقْليُّ فيْ القَضیَّۃِ المَعقُولَۃِ۔ (کتاب التعریفات بیروت:۱۲۷) قول: (مناطقہ کے نزدیک) مطلقاً کلامِ مرکب کو قول کہتے ہیں ، چاہے وہ مرکب کلام، مرکبِ لفظی (کلام اور بات)کے قبیل سے ہو، یا مرکبِ عقلی (اعتقاد ونظریہ)کے قبیل سے ہو؛(متکلمین حضرات اول کو ’’کلامِ لفظی‘‘ سے اور ثانی کو ’’کلام نفسی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔)(۲)۔ (۱)قوت وفعل: ’’قوت‘‘ کے معنیٰ ہے کہ کسی چیز کا حاصل ہوسکنا، اور ’’فعل‘‘ کے معنیٰ ہے: تینوں زمانوں میں سے کسی زمانے میں حاصل ہونا، یعنی کسی چیز میں کسی وصف کا ظاہر اور موجود ہونا ’’فعل‘‘ ہے، اور محض اُس کی صلاحیت اور استعداد ہونا اور اُس کے وصف کے وجود کا متوقع ہونا ’’قوت ‘‘ہے۔ (معین ص: ۴۴) (۲) (کتبِ فقہ میں )قول کا مصداق: کبھی مجتہد کے نزدیک ایک احتمال کو ترجیح حاصل ہوجاتی ہے تو وہ احتمال اُس کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے، اور دوسرا مرجوح احتمال روایت کی صورت میں باقی رہ جاتا ہے۔فُقَہا ایسی صورت میں یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں کہ: امام صاحب کا ’’قول‘‘ (مذہب) یہ ہے، اور اُن سے ایک ’’روایت‘‘ یہ ہے۔ اور کبھی کسی وجہ کو ترجیح حاصل نہیں ہوتی تو دونوں جانب امام کی رائے ’’مساوی‘‘ رہتی ہے، آپ فُقَہا کو دیکھیں گے کہ، وہ ایک ہی مسئلہ میں امام صاحب کے دو قول اِس طرح نقل کرتے ہیں کہ اُن دونوں قولوں کا امام صاحب کے نزدیک مساوی ہونا مفہوم ہوتا ہے، مثلاًکہتے ہیں : اِس مسئلے میں امام صاحب =