دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
قضیہ شرطیہ: وہ قضیہ ہے جو دو قضیوں کی طرف لوٹے، جیسے: اگر سورج نکلا ہوا ہے تو دن موجود ہے۔ اِس مثال سے لفظِ ’’اگر‘‘ اور ’’تو‘‘ کو نکال دیا جائے تو یہ قضیہ دو جملوں کی طرف لوٹے گا: سورج نکلا ہوا ہے، دن موجود ہے۔ (سالبہ کی مثال) اگر سورج نکلا ہوا ہو تو رات موجود ہوگی، ایسا تلازم بالکل نہیں ہے۔ قدْ تُقسَمُ القَضیَّۃُ باِعتبَارِ المَوضوْعِ۔ فالمَوضوْعُ إنْ کانَ جزْئیّاً وشَخْصاً معیَّناً، سُمِّیتِ القَضیَّۃُ شَخْصِیَّۃً ومَخْصُوْصَۃً، کقَوْلکَ: زَیدٌ قائِمٌ؛ وإنْ لمْ یَکنْ جُزْئیًّا؛ بلْ کانَ کلیًّا فھوَ عَلیٰ أنْحائٍ: لأنَّھا إنْ کانَ الحُکمُ فیْھا عَلیٰ نَفسِ الحَقیقَۃِ تُسمَّی القَضیَّۃُ طَبعیَّۃً، نحوُ: الإنْسانُ نَوْعٌ، والحیَوانُ جِنسٌ؛ وإنْ کانَ عَلیٰ أفرَادِھا، فَلایَخْلوْ: إمَّا أنْ یَکونَ کمِّیَّۃُ الأفرَادِ فیْھا مُبیَّناً أوْ لمْ یَکنْ، فإنْ بُیِّنَ کمِّیَّۃُ الأفرَادِ تُسَمّٰی القَضیَّۃُ مَحصوْرَۃً، کقَوْلکَ: کلُّ إنْسَانٍ حیَوانٌ، وبَعضُ الحیَوانِ إنسَانٌ؛ وإنْ لمْ یُبیَّنْ یُسمّٰی القَضیَّۃُ مُھمَلۃً، نَحوُ: الإنسَانُ لَفيْ خُسْرٍ۔ (مرقات: ۲۳) قضیہ حملیہ کی موضوع کے اعتبار سے چار قسمیں ہیں :شخصیہ یا مخصوصہ، طبعیہ، محصورہ یا مسوّرہ، مہملہ۔ قضیہ شخصیہ: وہ قضیہ حملیہ ہے جس کا موضوع جزئی اور شخصِ معین ہو، (جیسے: محمد اللہ کے رسول ہیں )۔ قضیہ حملیہ کا موضوع جزئی نہ ہو؛ بلکہ کلی ہو تو اُس کی چند قسمیں ہیں : قضیہ طبعیہ: وہ قضیہ حملیہ ہے جس کا موضوع کلی ہو اور حکم موضوع کی حقیقت پر لگایا گیا ہو، جیسے: انسان نوع ہے، اور حیوان جنس ہے۔