دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
وقَائِمٌ، وھمَا مُفرَدانِ؛ وإمَّا إلیٰ مُفرَدٍ وقَضیَّۃٍ، کمَا فيْ قوْلکَ: زَیدٌ أبُوْہُ قَائمٌ، فإذَا حَلَلْتَہُ، بَقِيَ: زَیدٌ -وھوَ مُفرَدٌ- وأبوْہُ قائِمٌ، وھوَ قَضیَّۃٌ۔(مرقات) قضیہ حملیہ: وہ قضیہ ہے جس میں ایک چیز کے لیے دوسری چیز کے ثابت ہونے یا نہ ہونے کا حکم لگایا گیا ہو، (اول کو موجِبہ کہتے ہیں ، جیسے: قرآن سچا ہے، دوسرے کو سالبہ کہتے ہیں ، جیسے: کوئی کافر جنتی نہیں ہے)۔ قضیہ حملیہ: وہ قضیہ ہے جو دو قضیوں کی طرف نہ لوٹے؛ بلکہ دو مفردوں یا ایک مفرد اور قضیہ کی طرف لوٹے، اول کی مثال: زَیدٌ ھُوَ قَائِمٌ ہے، کہ اِس سے ’’ھو‘‘ر ابط کو حذف کرنے سے’’زید‘‘ اور’’قائم‘‘ باقی رہیں گے، جو دونوں مفرد ہیں ۔ ثانی کی مثال: زیدٌأبوہُ قائمٌہے، کہ اِس کو اصل کی طرف لوٹایا جائے تو ’’زید‘‘ مفرد، اور ’’أبوہ قائم‘‘ قضیہ باقی رہے گا۔ القَضِیَّۃُ الشَّرْطیَّۃُ: مَا لاَیَکونُ فیہِ ذلکَ الحُکمُ، أيْ ثُبوتُ شَيئٍ لشَيئٍ أوْ نَفْیُہ عنہُ۔ وقِیلَ: الشَّرْطیَّۃُ: مَایَنْحَلُّ إِلیٰ قَضیَّتَینِ، کقَوْلنَا: إنْ کانَتْ الشَّمْسُ طالعَۃً فالنَّھَارُ مَوْجوْدٌ؛ ولَیسَ البَتۃَ إذَا کانَتِ الشَّمْسُ طالعَۃً فاللَّیْلُ مَوْجوْدٌ۔ الفائدۃُ: إذَا حُذِفَ الأدَواتُ بَقِيَ: الشَّمْسُ طالعَۃٌ، والنَّھَارُ مَوجوْدٌ۔ قضیہ شرطیہ: وہ قضیہ جس میں دو نسبتوں کے درمیان اتصال(جوڑ) یا اِنفصال (جدائی) کے ہونے یا نہ ہونے کو ظاہر کیا جارہا ہو، اِس کے پہلے جزء کو ’’مقدَّم‘‘ اور دوسرے کو ’’تالی‘‘ کہتے ہیں ، (جیسے: من یحفظ الدرس ینجح، یہاں دو نسبتوں میں جوڑ ہے، یا الإنسان شقي أو سعید ،یہاں دو نسبتوں میں جدائی ہے)۔