دستور الطلباء |
لمی و فن |
مَوضوْعاتِھا، أيْ تَساويْ وُجودِھا وَعدمِھا فيْ الخارجِ۔ ممکنات: وہ قضایا ہیں کہ عقل اُن کے موضوعات کی بابت خارج میں امکانی طور پر پائے جانے کا حکم لگائے، یعنی اُن موضوعات کا خارج میں وجود وعدم مُساوِی ہے۔ المُمتنِعات: ھيَ القَضایا التيْیَحْکُمُ العَقلُ بِامتِناعِ وُجودِ مَوضوْعاتِھا فيْ الخارجِ، مِثلُ: شَریکُ البَاريْ مَعدومٌ، وَاِجتِماعُ النَّقیضَینِ باطِلٌ۔ ممتنعات: وہ قضایا ہیں کہ عقل اُن کے موضوعات کی بابت خارج میں وجود کے امتناع کا حکم لگائے، جیسے: باری تعالیٰ کا ساجھی ناپَید ہے، دو نقیضوں کا (مع وحداتِ ثمانیہ) اجتماع بے اصل ہے۔ القَضیَّۃُ: قَوْلٌ یَحتمِلُ الصِّدْقَ والکِذْبَ، وقِیلَ: ھوَ قَوْلٌ یُقالُ لقَائلِہِ: إنَّہُ صَادِقٌ فیہِ أوْ کاذِبٌ۔وھيَ قِسْمانِ: حَمْلیَّۃٌ وشَرْطِیَّۃٌ۔ (مرقات:۱۵) قضیہ: وہ مرکبِ تام ہے جو (بذاتِ خود) سچ اور جھوٹ کا احتمال رکھتا ہو۔ یا وہ مرکب تام ہے جس کے کہنے والے کو سچا یا جھوٹا کہہ سکے، (جیسے: خالد تہجد گذار ہے، احمد محنتی طالبِ علم ہے)۔ قضیہ کی دو قسمیں ہیں : حملیہ، شرطیہ۔ہر ایک کی دو دو تعریفیں کی گئیں ہیں ۔ القَضیَّۃُ الحَمْلیَّۃُ: ھُوَ مَاحُکِمَ فیْھَا بثُبوْتِ شَيئٍ لشَيئٍ أوْ نَفیِہِ عنْہُ، کقَوْلکَ: زَیدٌ قَائِمٌ، وزَیدٌ لَیْسَ بِقَائِمٍ۔(مرقات) وقیل: الحَمْلیَّۃُ: مَا لاَیَنحَلُّ اِلیٰ قَضِیَّتیْنِ؛ بَلْ یَنْحَلُّ إمَّا إِلیٰ مُفرَدَینِ، کقَولکَ: زَیدٌ ھُوَ قَائِمٌ، فإنَّکَ إذَا حَذفْتَ الرَّابِطۃَ أعْنِي ’’ھُوَ‘‘ بَقِيَ: زَیدٌ