دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
الحَقیْقَۃِ، وفيْ نفْسِ الأمْرِ بأنْ لایَتجَاوَزَہُ إلیٰ غَیرِہٖ أَصْلاً،(نحو: ’’لاعالِمَ فِي المَدینَۃِ إلاَّ عَلِيٌّ‘‘ إِذَا لَم یَکُنْ فِیہَا غَیرَہٗ مِنَ العُلَمَائِ)۔ قصرِ حقیقی: ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خاص کرنا بہ اعتبارِ حقیقتِ حال اورصورتِ واقعہ کے ہو، بہ ایں طور پر کہ مقصور، مقصور علیہ سے بالکل متجاوز نہ ہو، (جیسے:شہر میں اگر علی کے عِلاوہ واقعی کوئی عالم نہیں ہے تو اُس وقت ’’لا عالِمَ فِي المَدینَۃِ إلاَّ عَلِيٌّ‘‘ کہنا قصرِ حقیقی کہلائے گا)۔ القَصْرُ الإضَافيُّ:ھوَالإضَافۃُ إلیٰ شَيئٍ آخَرَ بأنْ لایَتَجاوَزہُ إلیٰ ذٰلکَ الشَّيئِ، وإنْ أمْکَنَ أنْ یَتجَاوزَہُ إلیٰ شَيئٍ آخَرَ فيْ الجُمْلۃِ، (نحو:مَاعَلِيٌّ إلاَّ قائمٌ أي إنَّ لہٗ صفۃَ القِیامِ لاَصفۃَ القُعودِ وَلَیس الغَرَضُ نَفيُِ جَمیعِ الصِّفَاتِ عَنہُ مَاعَدَا صِفۃَ القِیامِ)۔ (کتاب التعریفات: ۱۲۴) قصرِ اضافی: ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ مخصوص کرنا کسی خاص چیز کی طرف نسبت واضافت کرتے ہوئے ہو، بہ ایں طور کہ یہ مقصور اُسی خاص مقصور علیہ کی طرف متجاوز نہ ہو، اگر چہ یہ مقصور اُس مخصوص مقصور علیہ کے عِلاوہ کی طرف متجاوز ہو، جیسے:(ہمارے مخاطب کا یہ دعویٰ ہو کہ علی(جو عالم اور سخی ہے)بیٹھا ہوا ہے، حالاں کہ وہ کھڑا ہے، تو اُس وقت یہ کہنا کہ: ماعلي إلا قائم علی کھڑا ہی ہے، بیٹھا ہوا نہیں ہے، جیسا کہ مخاطب کاگمان ہے۔ اِس جملے کے ذریعے متکلم نے علی کے لیے ایک شیٔ -یعنی صفتِ قعود- کی نفی کی ہے، دوسری صفات -مثلاً علم اور شجاعت- کی نفی نہیں کی؛ اِسی قبیل سے باری تعالیٰ کافرمان:{وَمَا مُحَمَّدٌ إلاَّ رَسُوْلٌ} اور محمد ا نِرے رسول ہی تو ہے(کہ اُن کو موت نہ آسکے)۔