دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
القَصْرُ: (فيْ الاصْطلاحِ) تَخصِیصُ شَيئٍ بِشَيئٍ وحَصْرُہٗ فیْہِ، ویُسَمَّی الأمْرُ فیہِ مَقصوْراً، والثَّانيْ مَقْصُوْراً علیْہِ، کقَوْلنَا فيْ القَصْرِ بَینَ المُبتَدأِ والخَبرِ:إنَّمَا زَیدٌ قائِمٌ؛ وبَینَ الفِعْلِ والفَاعِلِ: ماضَربْتُ إلاَّ زَیداً(۱)۔ (کتاب التعریفات ص:۴۰) قصْر وحصر: (علمائے معانی کے نزدیک) ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ (کسی مخصوص طریقے سے) خاص کرنا؛ جس کو خاص کیا جائے اُس کو مقصور، اور جس چیز کے ساتھ خاص کیا جائے اُس کو ’’مقصور علیہ‘‘ کہتے ہیں ، جیسے زید کو حالتِ قیام میں منحصر کرتے ہوئے کہنا: إنَّمَا زَیدٌ قائِمٌ، زید کھڑا ہی ہے (یہ مبتدا خبر کے درمیان حصر کی مثال ہے)؛ اور متکلم کا اپنے ضرب کو زید پر منحصر کرتے ہوئے کہنا: ماضَرَبْتُ إلاَّ زیْداً، مَیں نے زید ہی کو مارا ہے، (یہ فعل اور معمولاتِ فعل کے درمیان حصر کی مثال ہے)۔ القَصْرُ الحَقِیقيُّ: تَخْصیْصُ الشَّيئِ بالشَّيئِ بِحَسَبِ (۱)المُلاحَظَۃ: أنَّ المَقصُوْرَعَلَیہِ فيْ النَّفْيِ والاسْتِثنَائِ ہوَ مَابَعدَ أدَاۃِ الاسْتثنائِ، نحوُ: {وَمَا تَوفِیقِيْ إلاَّ بِاللّٰہِ} اور مجھ کو جو کچھ توفیق ہوجاتی ہے صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے۔ والمَقْصوْرُ عَلیْہِ معَ ’’إنَّمَا‘‘ یَکوْنُ مُؤخَّراً فيْ الجُمْلۃِ وُجوْباً، نَحوُ: إنَّمَا الدُّنْیَا غُروْرٌ؛ والمَقصوْرُ علیْہِ مَعَ ’’لاَ‘‘ العَاطفَۃِ ہوَ الوَاقعُ قبْلَہَا، والمُقابِلُ لمَا بَعدَہا، نحوُ: الفَخْرُ بالعِلْمِ لا بالمَالِ؛ والمَقْصُوْرُ علیْہِ معَ ’’بَلْ‘‘ أوْ ’’لٰکِنَّ‘‘ العَاطفَتیْنِ ھوَ الوَاقِعُ مَابَعدَھمَا، نحوُ: مَاالفخْرُ بالمَالِ بَلْ بالعِلْمِ، ومَاالفَخْرُ بالنَّسَبِ لٰکنْ بالتَّقْوَی؛ والمَقصُورُ علیْہِ فيْ تَقدِیْمِ مَاحقَّہُ التَّأخیْرُ ھوَ المقدَّمُ، نحوُ: عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا۔ (جواھر البلاغۃ:۱۱۷) فائدہ: اردو میں مقصور علیہ کا ترجَمہ کرتے ہوئے لفظِ ’’ہی‘‘کو بڑھایا جاتا ہے۔