دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
لے (جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے)، اور مکلف اپنی نماز پوری کرلے)۔ القدرۃ المُیسِّرۃ: ما یُوجبُ الیُسرَعلَی الأدائِ، وھيَ زائدۃٌ علَی القُدرۃِ المُمَکِّنۃِ بدرَجۃٍ واحدۃٍ فيْ القوَّۃِ، إذْ بِھَا یَثبتُ الإمکانُ ثمَّ الیُسرُ، بخلافِ الأوْلیٰ إذْ لایثبتُ بھا الإمْکانُ۔(أیضا) قدرتِ مُیسِّرہ: بدنی یا مالی مأمور بہ کو ادا کرنے کی وہ قدرت جس سے بندہ بہ آسانی وجوب کو اداکرسکے، جیسے: نصاب کے بہ قدر مال پر سال گزرنے کے بعد ادائیگیٔ زکوۃ کا حکم ہوگا؛ لیکن مکمل سال کے گذر جانے کے بعد اگر پورا ہی نصاب ہلاک ہوجائے، تو ’’قدرت میسرہ‘‘ کے مفقود ہونے کی وجہ سے ادائیگی ساقط ہوجائے گی۔ ملاحظہ: قدرت میسرہ قوت میں قدرتِ ممکنہ سے ایک درجہ بڑھی ہوئی ہے؛ اِس لیے کہ ممکنہ میں مأمور بہ کو کر سکنا (ممکن ہونا) ہی کافی ہے، جب کہ میسرہ میں اِمکان کے ساتھ سہولت اور آسانی بھی ملحوظ ہوتی ہے۔ القدمُ الذاتي: باب الحاء کے تحت ’’حادث‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ القدمُ الزماني: باب الحاء کے تحت ’’حادث‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ القرینۃ: ھُوَ ما یَدلُّ علیٰ تَعیِیْنِ المرادِ باللفْظِ أوْ علیٰ تعیینِ المَحذوفِ۔ أَوْ أَمرٌ یُشیرُ إِلَی المَطلوبِ بلا وضع۔ (کتاب التعریفات:۱۲۳، بیروت؛ درایۃ النحو:۷۹)