دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
قدرت: زندہ آدمی میں وہ خوبی ہے جس سے بندہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے اور چھوڑنے پر قابو پالے۔ ملاحظہ: وہ صفتِ قدرت جس کی وجہ سے بندہ بالاختیار کسی کام پر قابو پاتا ہے، اور جس پر (شریعتِ مطہرہ نے) شرعی حکم دینے اور مکلّف بنانے کا مدار رکھا ہے، وہ اسباب وآلات کا صحیح سالم ہونا ہے، (جیسے: نماز پڑھنے والے کے لیے استقبالِ قبلہ کا حکم ہے؛ لیکن اگر کوئی آدمی زیادہ بیمار ہے، یا اُس کو دشمنوں کے حملہ کرنے کا خوف ہے، تو وہ جس جہت میں ہوگاوہی اُس کا قبلہ شمار ہوگا، گویا قدرت کے فقدان سے استقبالِ قبلہ کا حکم اُس سے ساقط ہوگیا)۔ الاستطاعۃ: عَرَضٌ یَخْلقُہٗ اللّٰہُ تَعالیٰ فِي الحَیَوانِِ، یَفعَلُ بہِ الأَفْعالَ الاِخْتِیاریَّۃَ۔ (دستور العلماء۱/۷۲) استطاعت: وہ عرض(قائم بالغیر چیز) ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے جاندار میں پیدا کیا ہے، جس کے ذریعے سے وہ اختیاری کاموں کو انجام دیتاہے،(مثلاً کھانے، پینے اورنماز پڑھنے کی طاقت کا ہونا)۔ القدرۃ المُمکِّنۃ: عبارۃٌ عنْ أَدنیٰ قوَّۃٍ یَتمکنُ بھا المأْمورُ منْ أَدائِ ما لزِمہٗٗ، بَدَنِیّاً کانَ أَو مالیّاً۔ (کتاب التعریفات بیروت:۱۲۲) قدرتِ ممکّنہ:بدنی یا مالی مأمور بہ کو ادا کرنے پر (آخری درجے کی) قدرت جس سے بندہ ادائیگیٔ وجوب پر قابو پاسکے، (جیسے: کوئی آدمی ایسے وقت بالغ ہوا کہ اب پاکی حاصل کرنے کے بعد صرف تکبیر تحریمہ کہہ سکتا ہے، تو اُس پر نماز ظہر فرض ہوجائے گی؛ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ باری تعالیٰ سورج کی گردش روک