دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
میں ملاحظہ فرمائیں ۔ السَّجْعُ المُطرِّفُ: ہوَ أنْ تَتَّفِقَ الکلمَتَانِ فيْ حرْفِ السَّجْعِ لا فيْ الوَزْنِ، کالرَّمِیْمِ والأُمَمِ۔ (کتاب التعریفات) سجعِ مطرف: وہ سجع ہے جس کے دو کلمے حرفِ سجع میں یکساں ہوں نہ کہ وزنِ عروضی میں ، جیسے: الرَّمیمِ والأممِ(۱)۔ الرَّويُّ: ہوَ الحَرْفُ الذيْ تُبْنیٰ عَلیہِ القَصِیدَۃُ وتُنسَبُ إلیْہِ، فیُقالُ: قَصیدَۃٌ دَالیَّۃٌ، أوْتائیَّۃٌ۔ (کتاب التعریفات) روی: قافیے کا سب سے پچھلا باربار آنے والا حرف جس پر نظم وقصیدہ کی بنیاد ہو، اور وہ قصیدہ اُسی حرف کی طرف منسوب ہو، جیسے کہا جاتا ہے: قصیدۂ دالیہ، قصیدۂ تائیہ۔ القانون: باب القاف کے تحت ’’قاعدہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ القبول: باب الالف کے تحت ’’ایجاب‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ القُدرۃُ: ھيَ الصِّفۃُ التيْ تَمَکَّنَ الحيُّ معَھا مِن الفِعْلِ وَتَرکہٖ بالاِرادَۃِ، أيْ کونُ الحيِّ بحیثُ یَصحُّ صُدورُ الفِعلِ عَنہٗ وَعدمُ صُدورہٖ بالقَصدِ … ثُمَّ اِعلمْ! أَن القُدرۃَ التيْ یَتمَکنُ بِھا العَبدُ وَعَلیھا مَدارُ التَّکلیفِ ھِيَ بِمعنیٰ سَلامۃِ الأسْبابِ وَالآلاتِ۔ (دستور۳/۶۳، ۶۵؛ کتاب التعریفات بیروت: ۱۲۲) (۱) قافیہ یاتو کلام اللہ میں ہوگا یا یاکلام الناس میں ہوگا؛ اگر کلام اللہ میں ہے تو اُس کو ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں ، اور کلام الناس میں ہے تو اُس کی دو صورتیں ہیں : یاتو کلامِ نثر میں ہوگا، یاکلامِ نظم میں ہوگا؛ اگر نثر میں ہے تو اُس کو ’’سجع‘‘ کہتے ہیں ، اور نظم میں ہے تو اُس کو ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں ۔