دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
کلمہ یا زائد از کلمۂ واحدہ سے بھی قافیہ بنتا ہے۔ الفَاصِلۃُ: باب الواو کے تحت ’’وزنِ شعری‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ السَّجْعُ: ہوَ تَواطُؤُ الفَاصِلتَینِ منْ النَّثْرِ علیٰ حَرْفٍ واحدٍ فيْ الآخِرِ، (کقول صاحب التہذیب: لازَالَ لہٗ مِنَ التَّوفِیق قِوامٌ، ومِنَ التأیِیْد عِصَامٌ،وعَلَی اللّٰہ التَّوَکل وبِہِ الاعْتِصَام)۔ (کتاب التعریفات:۸۵) سجع: کلامِ منثور میں دو فاصلوں کے آخرِ الفاظ کاآخری حرفوں کی شکل (حرکت وسکون) میں یکساں اور موافق ہونا،(جیسے صاحبِ تہذیب المنطق کا فرمان: لازَالَ لَہٗ إلخ: ہمیشہ رہے اُس (بیٹے)کے لیے توفیقِ خداوندی کا سہارا، اور تائیدِ الٰہی کی پناہ، اور اللہ ہی پر اعتماد اور بھروسہ ہے، اور اُن ہی کادامن تھامنا ہے۔ اِس مثال میں فِعَال کا وزن ہے، اور اخیر میں الف اور میم آرہے ہیں )۔ فائدہ: فاصلہ: (علمِ عروض میں ) اُن تین متحرک حرفوں کی شکل کو کہتے ہیں جن کے ساتھ چوتھا حرف ساکن ہو، جیسے: کَتَبْتُ، یہ فاصلۂ صغری ہے، اور اگر چار متحرک حرفوں کے ساتھ پانچواں حرف ساکن ہو تو اُس شکل کو ’’فاصلۂ کبریٰ‘‘ کہا جاتا ہے، جیسے: سَمِعَہُمْ۔ السَّجْعُ المُتَوازيْ: ہوَ أنْ یُراعَی فيْ الکلمَتینِ الوَزْنُ وحرْفُ السَّجْعِ، کالمَحْیَا والمَجْریٰ، والقَلَمُ والنَّسَمُ۔ (کتاب التعریفات: ۸۵) سجعِ مُتوازی: وہ سجع ہے جس کے دو کلمے حرفِ سجع میں یکساں ہونے کے ساتھ وزنِ عروضی میں بھی موافق ہوں ، جیسے: المَحْیَا والمَجْرَی، والقَلَمُ والنَّسَمُ۔ ملحوظہ:وزن عروضی کی تعریف باب الواو کے تحت ’’وزن شعری‘‘ کے ضمن