دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
لِکُلِّ ما یُؤْذِيْ وإنْ قَلَّ ألَمْ مَا أَطْوَلَ اللَّیْلَ عَلیٰ مَنْ لَمْ یَنَمْ أوْ بعضَ کلمۃٍ، مثلُ: لَاْلَاْ، منْ: زُلَاْلَاْ، فيْ قولِ بَعضِھم: [الوافر] وَمَنْ یَکُ ذَا فَمٍ مُرٍّ مَرِیْضٍ یَجِدْ مُرّاً بِہِ المائَ الزُّلَاْلَاْ (میزان الذھب:۱۲۳) قافیہ: (بہ قول امامِ اخفشؒ)بیت کا آخری کلمہ، جیسے: زہیر کے شعر میں لفظِ مَوْعِدْ، (کہ وہ بیت کا کلمۂ اخیر ہے)۔ (بہ قول امامِ خلیل نحوی) بیت کے اخیر میں آنے والے حرفِ ساکن سے پہلے والا حرف ساکن اپنے ماقبل جس حرفِ متحرک سے ملا ہوا ہے، اُس حرفِ متحرک سے اخیر تک آنے والے حروف کو ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں ، چاہے یہ (دو حروف ساکنہ مع ماقبل حرف متحرک ایک ہی کلمے میں ہوں )، جیسے: مَوْعِد، کہ دو حروف ساکن (واو اور دال) مع ما قبل حرفِ متحرک (میم) ایک کلمے میں جمع ہیں ؛ یا یہ تینوں حروف ایک سے زائد کلموں میں ہوں ، جیسے: لَمْ یَنَمْ، کہ ساکنِ اول (میمِ اول) مع ماقبل حرفِ متحرک (لام)ایک کلمہ میں ہیں ، اور ساکنِ ثانی (میمِ ثانی) دوسرے کلمے میں ہے؛ یا یہ حروف ایک کلمہ سے کم میں پائے جائیں ، جیسے: لَاْلَاْ کلمۂ زُلَاْلَاْ میں ، کہ ساکنِ اول (الفِ اول)ا ور اُس سے پہلے والا حرفِ متحرک (لامِ اول)، نیز ساکنِ ثانی (الف ثانی) بعضِ کلمہ میں پائے جاتے ہیں ۔ الحاصل! آخری دو ساکنوں سے پہلے جو حرف متحرک ہو وہاں سے آخری شعر تک جتنے حروف ہیں ، اُن کے مجموعے کو قافیہ کہتے ہیں ، لہٰذا کبھی پورا کلمہ یا بعضے