دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
العیب: مَا یَخلوْ عنہٗ أصلُ الفِطرۃِ، فالحِنطَۃُ قدْ تَکونُ رَدیَّۃً فيْ أصلِ الخِلقۃِ۔ فعُلمَ أَنَّ الرَّدا.8ئَۃَ فيْ الحِنطۃِ لَیستْ بِعَیبٍ۔( حاشیۂ ہدایہ ۳/۲۳۹) عیب: وہ نقص اور خرابی ہے جس سے اصل فطرت خالی ہو؛ چناں چہ گیہوں بسا اوقات فطری طور پر ردّی ہوتے ہیں ، معلوم ہوا کہ ردّی ہونا گیہوں میں عیب نہیں ہے۔ (فطرت: وہ بنیادی حالت وکیفیت جس پر موجود کا وُجود ابتدا سے قائم ہو)۔ عَینُ الیقینِ: باب العین کے تحت ’’علم الیقین‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الغرض والغایۃ:باب العین کے تحت ’’علت غائی‘‘ کے حاشیے میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الغلَط: المُخالِفُ لِلوَاقِعِ مِن غیرِ قَصد، ما لمْ یُعرَفْ وجہُ الصَّوابِ فیہِ۔ (التعریفات الفقہیۃ:۱۵۸) غلَط: بلا قصد خلافِ واقعہ بات، جس میں درستگی کی کوئی توجیہ معلوم نہ ہوسکے،(جیسے: جاء ني نثار کے بہ جائے جاء ني حمار زبان سے نکل گیا)۔ الغني: باب الفاء کے تحت ’’فقیر‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔