دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
وارتفاع ضدین وغیرہ)؛ ورنہ وہ امتناع غیر کے تقاضے سے ہوگا، جیسے: عقلِ اول کا ممتنع ہونا۔(۱) الضرورات الشعریۃ:یَنبغِيْ لطَالبِ الشِّعْرِ أنْ یَکوْنَ خبِیْراً بقَوَاعِدِ اللُّغَۃِ العَرَبیَّۃِ: مِنْ صَرْفٍ ونَحْوٍ ومَعانٍ وبَیانٍ وبَدیعٍ ولُغَۃٍ وإشْتِقاقٍ وتارِیْخٍ وعَرُوْضٍ وقَوَافٍ وإنْشائٍ إلخ، لأنَّ النَّظْمَ أَرْبعَۃُ أَنوَاعٍ: (۱) نَظْمٌ خَالٍ مِنْ العَیْبِ وَالضَّرُوْرَۃِ، (۲) نَظْمٌ فِیہِ عَیبٌ، فیُضرَبُ بِہِ عُرْضَ الحَائطِ، (۳) نظْمٌ فیہِ ضَرورَۃٌ قَبیحَۃٌ، وھٰذا مُبْتَذَل، (۴) نظْمٌ فِیہِ ضَرورَۃٌ مَقبولَۃٌ، یَجوزُ للشَّاعرِ اِرتِکابُھا بِدُونِ مُؤاخذَۃٍ عَلیہِ۔ (میزان الذھب:۲۹) ضرورتِ شعری: مسجع اور بلیغ کلام کے خواہش مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ زبانِ عربی کے قواعد سے یعنی: علمِ صرف، نحو، معانی، بیان، بدیع، لغت، اِشتقاق، تاریخ، عروض، قوافی، انشاء وغیرہ سے واقف (بصیرت والا) ہو؛ کیوں کہ اَشعار چار قسموں کے ہوتے ہیں : (۱)عقل بہ معنیٰ عقلِ انسانی کا کوئی منکر نہیں ، ہاں ! فلاسفہ کا مشہور قول یہ ہے کہ: عقول دس ہیں ۔ اُن کے نزدیک واجب تعالیٰ سے پہلی صادر ہونے والی چیز عقل اول ہے، جس سے عقولِ عشرہ کی مابقیہ عقول وافلاک وجود میں آئیں ، اور اُنھیں سے عالَم کا نظام چلتا ہے، اور باری تعالیٰ العیاذ باللہ عقلِ اول پیدا کرنے کے بعد معطل ہوگیا؛ حالاں کہ یہ بات فرمانِ الٰہی {کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِيْ شَأنٍ} ’’وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں ہے‘‘ کے بالکل خلاف ہے!۔(فلاسفہ عقول کو ملائکہ کا مترادف کہتے ہیں ۔) تفصیل کے لیے معین الفلسفہ ملاحظہ فرمائیں ۔