دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
(۱)وہ منظوم کلام جو نقص، عیب اور ضرورتِ شعری(وہ حالت جس کے تحت ایسا تصرُّف کیا جائے جو نثر میں نہ کیا جاتا ہو) سے بَری ہو۔ (۲)وہ مجموعۂ اشعار جس میں نقص اور عیب ہو، اَیسے کلام کو ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے یعنی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ (۳)وہ مجموعۂ اَشعار جس میں قبیح (باعثِ شرم) ضرورت کا ارتکاب ہو، اور یہ گھٹیا درجے کا کلام کہا جاتا ہے۔ (۴)وہ منظوم کلام جس میں پسندیدہ (قابلِ قبول) ضرورت ہو، کہ شاعر کے لیے بدونِ مؤاخذہ اُس کا ارتکاب جائز ہے، اِس کی گیارہ صورتیں ہیں (۱)۔ (۱)(۱)تنوینُ العَلَمِ المُنادَی: کقولِ الشَّاعرِ، وقدْ نَوَّنَ مطَرُ: [الوافر] سَلامُ اللَّہِ یَا مَطرٌ عَلَیھَا خ وَلَیسَ عَلیکَ یَا مَطرُ السَّلامُ (۲)وقدْ أَشبَعُوا الحرَکۃ، حتَّی یَتوَلَّدَ منْھا حَرْفُ مَدٍّ، کقوْلِ إمرِیِٔ القَیْسِ، وقدْ اَشْبَعَ الکسْرَۃَ فتوَلَّدَتْ یائٌ فيْ اِنجَلِيْ: [الطویل] أَلاَ اَیُّھا اللَّیلُ الطَّویلُ ألا اِنجَلِيْ خ بِصُبحٍ وَمَا الإصباحُ منکَ بِأمثَلِ الملاحظۃ: الإشباعُ کثیرٌ في الضمائرِ، نحوُ: أخاکَا في أخَاکَ، ولَہُوْ في لہُ۔ (۳)ویجوزُتَحریکُ میمِ الجَمعِ:کقولِ أبيْ أُذَیْنَۃَ، وقدْ حرَّکَ المِیمَ فيْ ’’ھُمْ‘‘ و’’مَجدُھُمْ‘‘: [البسیط] ھُمُ أھِلَّۃُ غَسَّانٍ وَمَجدُھُمُ خ عَالٍ فانْ حَاوَلُوا مُلْکاً فَلاَ عَجَبَا (۴)وَکذلکَ کسْرُ آخرِ الکَلمَۃِ، اِنْ کانَ سَاکناً، کقولِ عَنْتَرۃَ، وقدْ کَسَرَ میمَ أَقْدِمْ: [الکامل] لقَدْ شَفَی نَفسِيْ وأَبْرَئَ سُقْمَھا خ قِیلُ الفَوَارِسِ وَیْکَ عَنْتَرَ أَقدِمِ (۵)صَرْفُ مَا لایَنصَرِفُ: کقولِ الشَّاعرِ: وقدْ صَرَف ’’اَنْدَلُسٍ‘‘: [البسیط] فيْ أرْضِ أَندَلُسٍ تُلْتَذُّ نَعْمَائُ خ وَلاَ یُفَارِقُ فِیھَا القَلبَ سَرَّائُ