دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
ذات کے اعتبار سے وجود وعدم دونوں کی صلاحیت رکھتی ہو، پس ایسی ماہیت پر امکان (ہوسکنا) کا حکم لگانامُحال نہیں ہے(۱)۔ الامْتِنَاعُ: ضَرورَۃُ اِقْتِضَائِ الذَّاتِ عَدَمَ الوُجُوْدِ الخَارِجِيِّ، -وھٰذَا ھوَ ’’الامْتِنَاعُ الذَّاتِيُّ‘‘، أوْ ’’وُجوْبُ العَدَمِ‘‘ أوْ’’لاإمْکانُ الوُجوْدِ‘‘، کمَا مَرَّ فيْ الإمْکانِ-؛ فإنْ کانَ وُجُوْبُ العَدمِ أوْ لاإمْکانُ الوُجوْدِ بمُقْتَضَی الذَّاتِ فَھوَ الامْتِناعُ الذَّاتِيِّ، کامْتِناعِ شَریْکِ البَارِيْ؛ أو بمُقتَضَی الغَیرِ فھوَ الامْتِناعُ بالغَیرِ، کعَدمِ العَقْلِ الأوَّلِ۔ (دستور العلماء۱/۱۳۱) امتناع: کسی ذات کا خارج میں نہ پائے جانے کا مقتضِی ہونا، یعنی اُس کا عدم ضروری ہو اور موجود نہ ہو سکے؛ پھر اگر کسی ذات کا وجوبی طور پرنہ پایا جانا ذات کے مُقتضا سے ہو تو اُسے امتناعِ ذاتی کہتے ہیں ؛- جیسے: شریکِ باری تعالیٰ کا ممتنع ہونا-(کہ شریک باری تعالیٰ کا مفہوم ہی عدم کو چاہتا ہے ،اسی طرح اجتماع ضدین (۱)الامکان: امکان ضرورت کی ضد ہے؛ اِس لیے امکان کو’’ لا ضرورت‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ پھر امکان کی دو قسمیں ہیں : (۱)امکانِ عام(۲)امکانِ خاص۔ الإمکانُ العام: سلبُ الضرورۃِ الذاتیَّۃِ عن الجانبِ المخالِفِ لِلحکمِ۔ موضوع کے لیے محمول کا ثبوت یا سلب اِس طرح ہو کہ اُس کی جانبِ مخالف ضروری نہ ہو، جیسے:’’کل نار حارّۃ بالإمکان العام‘‘یعنی آگ اِس طرح گرم ہے کہ عدمِ حرارت اُس کے لیے ضروری نہیں ہے ،(یعنی آگ کے لیے ٹھنڈا ہونابھی ممکن ہے جیسے حضرت ابراہیم ں کے واقعے میں ہے)۔ الإمکانُ الخاص: سلبُ الضرورۃِ الذاتیۃِ عن الطَّرفینِ المُوافقِ والمُخالفِ للحکمِ، یعنی حکم کی نہ جانبِ موافق ضروری ہو، نہ جانبِ مخالف، جیسے’’کل إنسان موجود بالإمکان الخاصِّ‘‘(یعنی انسان ایک ایسا موجود ہے کہ اُس کے لیے نہ وجود ضروری ہے نہ عدمِ وجود ضروری ہے)۔ (مفتاح التہذیب ص: ۶۲،۶۳)