دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
رہی ہے وہ ضروری ہے، یعنی عقل کے اعتبار سے انسان کی طرف ہونے والی حیوان کی نسبت کبھی بھی انسان سے جدا نہیں ہو سکتی، نتیجۃً: انسان کی طرف حیوانیت کی نسبت دائمی رہے گی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ ضرورت اور دوام میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے، کہ ہر نسبتِ ضرورت میں نسبتِ دوام یقینا ہوگی؛ لیکن ہر نسبتِ دوام میں نسبتِ ضرورت کا پایا جانا ضروری نہیں ہے؛(چناں چہ کل إنسان حیوان بالضرورۃ والی مثال میں کل إنسان حیوان دائما بھی کہا جاسکتا ہے)۔ الدَّوَامُ: شُمُوْلُ نِسْبَۃِ شَيئٍ إلیٰ آخَرَ جَمیْعَ الأزْمِنَۃِ والأوْقاتِ ،مِثْلُ: کُلُّ فَلَکٍ مُتحَرِّکٌ دائماً؛ فالدَّوامُ أعَمُّ مِنْ الضَّرُورَۃِ التِيْ ھيَ امْتِناعُ انْفِکاکِ تِلکَ النِّسْبَۃِ۔ (دستور العلماء ۲/ ۸۰بحذف) دوام: محمول کی موضوع کے ساتھ ہونے والی نسبت کا (جدائی کے امکان کے باوجود)تمام زمانوں اور تمام اوقات میں موجود رہنا؛جیسے: فلک کا ہر فرد (تمام زمانوں میں ) حرکت کرتا ہے،اگرچہ فلک کے لیے حرکت کرنا ایسا ضروری نہیں جیسا انسان کے لیے حیوان ہونا ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ دوام، ضرورت (جس میں محمول کی نسبت کا موضوع سے جدا ہونا محال ہو) سے عام ہے۔ الإمْکانُ: عَدَمُ اقتِضَائِ الذَّاتِ للوُجوْدِ والعَدَمِ، بأنْ تَکوْنَ المَاھیَّۃُ مِنْ حَیْثُ ھِيَ ھِيَ قَابِلۃً للوُجوْدِ والعَدَمِ؛ فَلایَستَحیْلُ الحُکمُ علیْہَا بالإمْکانِ۔ (دستور العلماء ۱/ ۱۱۳) اِمکان: کسی ذات کا عدم ووجود کا مقتضِی نہ ہونا بہ ایں طور کہ وہ ماہیت اپنی