دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
اور ہر چاندروشن ہے(کبریٰ)؛ پس زید روشن ہے(نتیجہ)۔ القِیَاسُ السَفْسَطِيُّ: وَھوَ قِیاسٌ مُرَکَّبٌ مِنْ الوَھْمِیَّاتِ الکاذبَۃِ المُخْترَعَۃِ للوَھْمِ، کقِیَاسِ غیْرِ المَحسُوْسِ عَلَی المَحسُوْسِ، نحوُ: کلُّ مَوْجُودٍ مُشارٌ الیْہِ۔(مرقات:۳۶) قیاسِ سَفسَطی: وہ قیاس ہے جو وہم کے ایجاد کردہ جھوٹے مقدمات سے مرکب ہو، جیسے غیر محسوس چیز کا محسوس چیز پر قیاس کرنا، (مثلاً: ہر موجود چیز اشارے کے قابل ہے(صغریٰ)، اور جو اشارے کے قابل ہے وہ جسم والا ہے(کبریٰ)؛ پس ہر موجود جسم والا ہے(نتیجہ)۔ الصِّنْف: باب القاف کے تحت ’’قسم‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الصواب: باب الخاء کے تحت ’’خطا‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ صورۃُ القیاس: (وشَکْل القِیَاس)ہو الہیئَۃُ الحاصلۃُ من ترتیبِ المقدماتِ، ووَضعِ بعضِہا عندَ بعضٍ۔ (مرقات:۳۱) صورتِ قیاس: قیاس کی وہ ہیئت ہے جو ترتیبِ مقدمات اور حدِ اوسط کے (اصغر اور اکبر کے پاس)رکھنے سے حاصل ہوتی ہے،(اِسی کو شکلِ قیاس بھی کہتے ہیں )۔شکلیں کل چار ہیں : الأشکالُ أربعۃٌ: وجہُ الضبطِ أن یقالَ: الشکلُ الأول: الحدُّ الأوسطُ إما محمولُ الصغریٰ، وموضوع الکبریٰ، کما في قولنا: العالَمُ متغیّرٌ، وکلُّ متغیِّرٍ حادثٌ، یَنتِجُ: العالَمُ حادثٌ؛ فہو الشکلُ الأوّلُ۔ (مرقات:۲۶)