دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
الصَّلاۃُ: ھيَ الدُّعائُ وَالرَّحمَۃُ والاِسْتِغفارُ والثَّنائُ منْ اللّٰہِ تَعالیٰ عَلیٰ رَسوْلہِا، کذَا فيْ القاموْسِ۔ وقدْ یُفرَّقُ: بأنَّ الصَّلاۃَ إذا نُسبَتْ إلَی اللَّہِ تَعالیٰ یُرادُ بِہَا الرَّحمَۃُ؛ وإذا نُسبَتْ إلَی المَلائکۃِ یُرادُ بِھا الاِستِغفارُ؛ وإذا نُسبَتْ إلَی المُؤْمنیْنَ یُرادُ بھَا الدُّعائُ۔ فصَلاتُنا عَلَی النَّبيِّا عبَارۃٌ عنْ طَلْبِ الرَّحمَۃِ منْ اللّٰہِ تَعالیٰ، والدُّعائُ منہُ تَعالیٰ: بأنَّہُ عظَّمَہُ فيْ الدُّنیَا بإعلائِ ذِکرہٖ وإبْقائِ شَریعَتہٖ إلیٰ یَومِ القِیَامۃِ؛ وفيْ الآخرَۃِ بقَبوْلِ شَفاعتِہِ فيْ العُصاۃِ، وتَضعیْفِ أجرِہٖ ورَفعِہٖ علَی الدَّرَجاتِ۔ (ضیاء النجوم حاشیۃ سلم العلوم) صلاۃ کے مختلف معانی ہیں : التجا واِلتماس کرنا، کرم ومہربانی کرنا، بخشش چاہنا، اور اللہ کا اپنے رسول کی تعریف کرنا۔ صلاۃ کے معانی میں فرق بہ ایں طور کیا جاتا ہے کہ: جب صلاۃ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو صلاۃ سے مراد کرم ومہربانی کرنا؛ صلاۃ کی نسبت جب ملائکہ کی طرف کی جائے تو اِس سے مراد فرشتوں کا استغفارکرنا؛ اور جب صلاۃ کی نسبت مؤمنین کی طرف ہو تو اِس سے مؤمنین کا التجا والتماس کرنا ہوگا۔ ملاحظہ:ہمارا نبی ا پر درود بھیجنا سے مراد: ہمارا باری تعالیٰ سے رحم وکرم کی = صفاتِ مذمومہ: وہ ہیں جس میں نقص ہی نقص ہو، کمال کی کوئی بات اُس کے اندر نہ ہو۔ فائدہ: صفاتِ کمالیہ پر حمد اور مدح دونوں ہوتی ہیں ، اور صفاتِ مستحسنہ پر محض مدح ہوتی ہے نہ کہ حمد، اور صفاتِ مذمومہ پر نہ حمد ہوتی ہے اور نہ مدح۔ (مآرب الطلبہ ص:۷۵)