دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
صفت: (چیز کی وہ کیفیت وحالت جس پر وہ قائم ہو، جمع: صفات ہے)۔ صفات کی دو قسمیں ہیں : صفاتِ ثبوتیہ، صفاتِ سلبیہ۔ صفات ثبوتیہ: قرآن یاحدیث میں ذکر کردہ وہ صفات جن کو باری تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ثابت کیا ہو، جیسے: سمیع وبصیر ہونا۔ الصِّفَات السَّلْبِیَّۃ: ہِيَ مَانَفَاہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہ عَنْ نَفْسِہ فِي کِتَابِہ أوْ علیٰ لِسَان رَسُوْلِہا۔(أیضاً) صفات سلبیہ: قرآن یاحدیث میں ذکر کردہ وہ صفات جن کے بابت باری تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی فرمائی ہو، جیسے: ظالم ہونے کی نفی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: {وَمَارَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیْدِ}۔ الصِّفاتُ الذَّاتیَّۃُ: مَایُوصَفُ اللّٰہ تَعالیٰ بِہٖ، وَلاَیُوصَفُ بضِدِّہِ، نحوُ: القُدْرۃُ والعَظْمَۃُ والعِزَّۃُ وغیرُہا۔ (دستور العلماء۲/۱۷۷) صفاتِ ذاتیہ: وہ صفات ہیں جن سے باری تعالیٰ کی حمد بیان کی جائے نہ کہ اُن کی اَضداد سے، جیسے: طاقت (شانِ الٰہی) اور قَدر ومَنزِلت وغیرہ(کہ عجز وغیرہ سے ذاتِ باری کو -العیاذ باللہ- متصف نہیں کیا جاتا)۔ ملحوظہ: اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتیہ کے بارے میں متکلمین کا اختلاف ہے، ابومنصور ماتریدیؒ فرماتے ہیں کہ صفات ذاتیہ آٹھ ہیں : حیات، علم، قدرت، سماعت، بصارت، ارادہ، کلام اور تکوین؛ جب امام ابوالحسن اشعریؒ کے نزدیک سات ہیں ، انھوں نے تکوین کو صفاتِ ذاتیہ میں سے شمار نہیں کرایا ہے۔ الصِّفاتُ الفِعْلیَّۃُ: مَایَجوْزُ أنْ یُوْصَفَ اللّٰہُ تَعالیٰ بضِدِّہِ،