دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
نہیں )، اور صدق وکذب کی تعریف میں عُلَما کا اختلاف ہے، جمہور کی تعریف: (متکلم کے اعتقاد کے مطابق) حکم کا واقعہ کے مطابق ہونا ’’صدق‘‘کہلاتا ہے، اور حکم کا واقعہ کے مطابق نہ ہونا ’’کِذب‘‘ کہلاتاہے(۱)۔ الصغریٰ: باب قاف کے تحت ’’قیاس‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الصِّفَۃُ:ہيَ الاسمُ الدالُّ علی بعضِ أحوالِ الذَّاتِ، وذلکَ نحو: طویلٌ وقصیرٌ، وعاقلٌ وأحمقُ وغیرہا۔ أوِ الصفۃُ: ہي الأمارۃُ اللازمَۃُ بذاتِ المَوصوفِ الذي یعرَفُ بہا۔ (کتاب التعریفات) صفت: وہ اسم ہے جو ذات کے بعض احوال وکیفیات پر دلالت کرے، (جیسے: لمبا،ناٹا؛ عاقل، بے وقوف وغیرہ ہونا، ذات کی کیفیات پر دلالت کرتا ہے)۔ الصِّفَات الثُّبُوتِیَّۃ: ہِيَ مَاأثْبَتَہٗ اللّٰہُ تَعَالیٰ لِنَفْسِہ فِي کِتَابِہ أو عَلیٰ لِسَانِ رَسُوْلِہا۔(الصفات الإلٰہیۃ تعریفہا وأقسامہا: ۵۸) (۱)کلام کے صدق وکذب کو معلوم کرنے کے لیے کلام کی تین نسبتوں کو جاننا ضروری ہے: کلامیہ، ذہنیہ، خارجیہ۔ نسبتِ کلامیہ: مبتدا وخبر کے درمیان اُس با ہمی ربط اور تعلُّق کو کہتے ہیں جو متکلم کے کلام سے سمجھا جاتا ہے۔ نسبتِ ذہنیہ: اُس نسبت کو کہتے ہیں جو متکلم کے ذہن کے اندر متصوَّر اور حاضر ہو۔ نسبتِ خارجیہ: مبتدا اور خبر کے درمیان خارجی تعلُّق کو کہتے ہیں ، جیسے: ’’زَیدٌ قَائِمٌ‘‘ کے اندر ثبوتِ قیام -جو کلام سے سمجھا جاتا ہے -’’نسبتِ کلامیہ‘‘ ہے، اور بہ ایں حیثیت کہ وہ متکلم کے ذہن میں مرتسم ہے ’’نسبتِ ذہنیہ‘‘ ہے، اور بہ ایں اعتبار کہ وہ خارج میں حاصل ہے ’’نسبتِ خارجیہ‘‘ ہے۔ ملاحظہ: نسبتِ خارجیہ، نسبتِ واقعیہ، حقیقیہ اور نفس الأمریہ؛ الفاظِ مترادفہ میں سے ہیں ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ جب نسبتِ کلامیہ، نسبتِ خارجیہ کے مطابق ہو تو اُسے ’’صِدق‘‘ کہا جاتا ہے؛ اور اگر نسبتِ کلامیہ، نسبتِ خارجیہ کے مطابق نہ ہو تو اُسے ’’کِذب‘‘ کہا جاتا ہے۔