دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
الملاحظۃ:اعْلمْ! أنَّ الصِّدْقَ یُطلَقُ عَلیٰ مَعانٍ: الأوَّلُ: الحَمْلُ، فیُقالُ: ہٰذَا صَادِقٌ عَلیْہِ أيْ مَحْمُولٌ عَلیْہِ؛ والثَّانيْ: التَّحقُّقُ، کمَا یُقَالُ: ہٰذَا صَادقٌ فیہِ، أيْ مُتحقَّقٌ؛ والثَّالثُ: مَایُقابِلُ الکِذْبَ۔ وفيْ تَعریْفِہمَا اخْتِلافٌ: فذہَبَ الجُمْہُوْرُ إلیٰ أنَّ صِدْقَ الخَبرِ مُطابَقۃُ الحُکمِ للواقِعِ، وَکِذْبُ الخَبَرِ عَدمُ مُطابَقۃِ الحُکمِ لَہُ۔ (دستور العلماء۲/۱۶۹) صدق: اِس کے تین معانی ہیں : (۱)صدق بہ معنیٰ حمل کرنا، جیسے کہا جاتا ہے: یہ خبر مبتدا پر صادق آتی ہے، یعنی مبتدا پر محمول ہے،(جیسے: زیدعالمٌ میں عالم ہونا زید پر صادق آتا ہے، یعنی زید پر محمول ہے)۔ (۲) صدق بہ معنیٰ تحقق، (یعنی جس پر مفہوم ذہنی فٹ ہو)جیسے کہا جاتا ہے کہ:یہ مَثَل زید پر صادق آتی ہے۔ (۳)صدق بہ مقابلِ کذب(جیسے کہاجاتا ہے:یہ خبر سچی ہے، جھوٹی =دلیل بیان کرتے ہوئے سورۂ آل عمران آیت: ۱۸۰تلاوت فرمائی:{ولایحسبن الذین یبخلون بما آتاہم اللہ من فضلہ ہو خیرا لہم بل ہو شر لہم سیطوقون مابخلوا بہ یوم القیامۃ} (ترمذی۲؍۱۳۱) ترجَمہ:ہرگز خیال نہ کریں وہ لوگ جو ایسی چیز میں بخیلی کرتے ہیں جو اُن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دی ہے کہ، یہ بات اُن کے لیے اچھی ہے؛ بلکہ یہ بخیلی اُن کے لیے بہت بری ہے، وہ لوگ قیامت کے دن اُس مال کا طوق پہنائے جائیں گے جس میں اُنھوں نے بخیلی کی ہے۔ صدق اور مصداق ایک دوسرے معنیٰ بھی مستعمل ہیں جو حسبِ ذیل ہے: صدق: مفہومِ ذہنی کا کسی چیزپر فٹ ہوجانا ’’صدق‘‘ کہلاتا ہے۔ مصداق: جس چیز پر (چاہے وہ چیز ذہنی ہو یا خارجی) مفہومِ ذہنی فٹ ہوجائے، اُس کو ’’مصداق‘‘ یا ’’فرد‘‘ کہتے ہیں ۔(توضیح المنطق:۱۹)