دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
الشَّطْرُ: باب الشین کے تحت ’’شرط‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الشَّکُّ: باب الیاء کے تحت ’’یقین‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الشَّکْلُ: الھَیئَۃُ الحَاصِلۃُ مِنْ کیْفیَّۃِ وَضعِ الأَوْسَطِ عِندَ الأَصْغَرِ وَالأَکبَرِ، تُسَمّٰی شَکْلاً۔ (مرقات:۲۶) شکل: وہ ہیئت ہے جو ( مقدمۂ قیاس میں ) حدِ اَوسط کو اَصغر واکبر کے پاس رکھنے سے حاصل ہو۔ اَشکالِ اربعہ کی تفصیل باب الصاد کے تحت ’’صورتِ قِیاس‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الشَّمُّ: باب الحاء کے تحت ’’حاسہ ‘‘کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الشيئُ:ھوَ ما یَصحُّ إن یُعلمَ ویُخبرَ عنہٗ (عند سیبویہ)۔ وقیلَ الشَّيئُ: عِبارۃٌ عن الوجودِ، وَھوَ اسمٌ لجمیعِ المکوِّناتِ عرْضًا کانَ أو جَوھرًا، وَیصِحُّ أنْ یُعلمَ ویُخبرَ عنہٗ۔ وفي الاصطلاح: ھو المَوجودُ الثابتُ المتَحقّقُ في الخارج۔ (کتاب التعریفات:۳۹) =بات ہے؟ آپ کا التفات موجبِ مباحات ہے۔(ایضاً:۵۰) فائدہ: نثر کی تعریف کتابوں میں یہی ہے کہ، جس میں وزن اور قافیہ کی قید نہ ہو؛ مگر نثر مُرجّز میں وزن اور نثرِ مقفی میں قافیہ ضرور ہوتا ہے۔(ایضاً:۴۶) نظم: وہ عمدہ اور معنیٰ خیز کلام جس میں وزن اور قافیہ دونوں ہوں ،اگر اُن میں سے کوئی ایک نہ ہوگا تو وہ کلام ’’نثر‘‘ کہلائے گا۔ (الادب العربی:۲۱) نعت: رسول اللہ ا کی تعریف میں اشعار۔ ہجو: ایسی نظم جس میں کسی کے عیوب -خواہ واقعی ہوں یا فرضی- مبالغے کے ساتھ مذاق آمیز الفاظ میں بیان کیے جائیں ۔ (آئینۂ بلاغت:۵۶)