دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
نے بنا کر پیش کیے ہیں اور ایک وزن امامِ اخفش نے پیش کیا ہے۔ (تفصیل باب الباء کے تحت ’’بحر‘‘ اور باب الواو کے تحت ’’وزنِ شعری‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں )۔ القافیَۃ: باب القاف کے تحت قافیہ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں (۱)۔ (۱)ضمیمہ در اصطلاحات شعریہ تخلُّص: وہ نام جو شاعر اپنے لیے تجویز کرے۔ (آئینۂ بلاغت،ص:۱۸) سجع: اصطلاح میں مقفیٰ الفاظ، خواہ وہ نظم میں استعمال ہوں یا نثر میں ۔ فی البدیہ: ایسے اشعار جو کسی خاص موقع پر فوراً بغیر غور وفکر کے کہے جائیں ۔ (آئینۂ بلاغت: ۳۲) مثنوی: مختلف القوافی ابیات کی طویل نظم جس میں تاریخی واقعات یا کوئی قصہ یا حکایات دلچسپ اور نتیجہ خیز طریقہ سے بیان کیے جائیں ۔(ایضاً:۳۶) مُعما: کسی شخص یا چیز کا نام صاف صاف نہیں ؛ بلکہ پیچیدہ طریقے سے اشارۂ لفظی یا دلالتِ حرفی سے لینا۔ (ایضاً:۸۱) نثر: (مقابلِ نظم) ایسا کلام جس میں وزن اور کافیہ نہ ہو، اِس کی چار قسمیں ہیں : عاری، مرجز، مسجَّع، مقفی۔ عاری: وہ نثر ہے جس میں نہ وزن کی قید ہو، نہ قافیہ کی اور نہ ہی اُس میں رعایات ومناسباتِ لفظی ہوں ۔ (ایضاً:۴۷) مُرَجَّز: وہ نثر کہ جس میں وزن ہو؛ مگر قافیہ نہ ہو۔(ایضاً:) مُسجّع: وہ نثر جس کے دو فِقروں کے تمام الفاظ ایک دوسرے کے ہم وزن اور حروف آخر میں بھی موافق ہوں ، جیسے: ترتیب ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ الفاظ پَونڈا(گنا) پھیکا اِتنا بُراکہ: جس کی برائی بیان سے باہر ہے الفاظ پونڈا میٹھا ایسا بھلا کہ: اُس کی بھلائی گمان سے بڑھ کر مُقفّیٰ: وہ نثر جس میں وزن نہ ہو؛ مگر آخری الفاظ میں قافیہ ہو، جیسے: تفقُّد نامۂ نامی میں صورت عزو شرف نظر آئی۔ اللہ اللہ تم نے میری نظر میں میری آبرو بڑھائی۔ /حضرت کی قدر دانی کی کیا =