دستور الطلباء |
لمی و فن |
علی سبیل القصد۔ (کتاب التعریفات ص: ۱۲۹) شعر: وہ کلام ہے جو بالقصد قافیہ اور وزن پر لایا گیا ہو (موزون ومقفیٰ کلام)۔ فائدہ: بالقصد کی قید سے باری تعالیٰ کے فرمان: {الَّذِيْ أَنْقَضَ ظَھْرَکَo وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ } جیسی مثالیں خارج ہوجائے گی؛ کیوں کہ یہ کلام قافیہ اور وزن پر ضرور ہے؛ لیکن اِس میں قافیہ بندھ گیا ہے، بالقصد قافیہ باندھا نہیں گیا، (شعر کا مقابل نثر ہے)۔(۱) البیت: ہو مجموعۃُ کلماتٍ صحیحۃ الترکیبِ، موزونۃٌ حسبَ قواعدِ علمِ العروضِ، تُکوِّنُ في ذاتہا وحدۃً موسیقیّۃً تُقابلہا تفعیلاتٌٌ معیَّنۃٌ۔ (المعجم المفصل في علم العروض:۱۶۹) بیت: چند ایسے کلموں کے مجموعے کا نام ہے جن کی ترکیب صحیح ہو، علمِ عروض کے قواعد کے مطابق موزون ہو جو بالذات متعیَّن بحروں کے مناسب ایک موسیقی ترنُّم پیدا کرے۔ البَیْتُ: کَلامٌ تَامٌّ یَتأَلَّفُ منْ أجَزائٍ، ویَنتَہِيْ بقَافیَۃٍ۔ (۱)ملاحظہ: یعنی متکلم کا وہ کلام جو شعر کے ارادے سے (علمِ عروض کی بُحور میں )کسی بحر پر کہا جائے، بحر کا قصد بھی ہو؛ گویا کہ شعر کے لیے دو شرائط ہے: (۱)بحر کے وزن پر ہونا(۲)بحر کا قصد کرنا، اِس قید کی وجہ سے جس طرح کلام اللہ شعر کی تعریف سے خارج ہے، اِسی طرح وہ اشعار بھی شعر ہونے سے خارج ہوجائیں گے جن کا پڑھنا نبیٔ کریم ا سے ثابت ہے -حالاں کہ آقاا کا شاعر نہ ہونا قطعی ہے-؛ کیوں کہ اُن میں بلاقصد موزونیت آگئی ہے؛ بلکہ درحقیقت یہ ایک معجزہ ہے کہ، حضورِ اقدس ا کا شاعر نہ ہونا عجز کی وجہ سے نہیں ہے؛ اِس لیے کہ جس شخص کے کلام میں بلاارادہ موزونیت آجاتی ہو، وہ اگر قصداً موزون بنائے تو کس قدر بہترین بناسکتا ہے!!۔(متعنا اللہ بعلومہ وفیوضہ، آمین)