دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
خارجاً عنْ ماھیتِہِ، وَلا یکونُ مؤَثِّرا في وجودِہ۔ وقیلَ: الشرْط: ما یُتوقفُ ثبوتُ الحکمِ علیہِ۔(التعریفات الفقہیّۃ: ۲۱) الشَّطْرُ: النصف، قال النسفي: قول النبي ا:’’الوُضوئُ شطْرُ الإیمانِ۔ أي شرطُ جوازِ الصلوۃِ۔ (ایضاً) شرط: (نحو میں ) ایک چیز کو بہ ذریعۂ حرفِ شرط دوسری چیز کے ساتھ اِس طور پر معلَّق کرنا کہ، جب اول(شرط) پائی جائے تو دوسرا (جزا) بھی پایا جائے۔ شرط: (فقہ میں ) وہ قید ہے جس پر چیز کا وجود موقوف ہو (جس کے بغیر چیز مکمل نہ ہو)؛ لیکن اُس کی حقیقت سے خارج ہو، اور چیز کے وجود میں مؤثر نہ ہو۔بہ قولِ بعض: وہ چیز جس پر حکم کا مدار ہو۔ شطر: بہ معنیٰ نصف، چیز کا جزء، جیسے نبیٔ کریم ا کا فرمانِ مبارک ہے: ’’پاکی ایمان (نماز) کا آدھا حصہ ہے‘‘ یعنی پاکی نماز کی درستگی کے لیے لازم وضروری ہے۔(نیز شطر بہ معنیٰ جانب بھی مستعمل ہے، جیسے باری تعالیٰ کا فرمان: {فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ})۔ الحاصل: شرطِ شیٔ اور شطرِ شیٔ میں فرق یہ ہے کہ، ’’شطر شیٔ‘‘ داخلِ شیٔ کو کہتے ہیں اور ’’شرطِ شیٔ‘‘ خارج شیٔ کو کہتے ہیں ۔ شعر اور اُس کی اصطلاحات الشِّعْرُ: کلامٌ مقفیً موزونٌ علیٰ سبیلِ القصدِ۔ والقید الأخیر یخرج نحو قولہ تعالیٰ: {الَّذِيْ أَنْقَضَ ظَھْرَکَo وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ}، فإنہ کلام مقفَّی موزون؛ لٰکن لیس بشعرٍ؛ لأن الإتیان بہ موزوناً لیس