دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
کبھی بعضے نسخوں میں متن کو اِس خَیال سے نہیں لکھا جاتا کہ، وہ متن بلاامتیاز خود شرح میں مُندَرِج ہے۔ ۲-شرح ’’بـ’قولُہٗ:…‘‘، جیسے: بخاری کی شرح لشہاب الدین الحافظ ابن حجر العسقلانيؒ، وللکرمانيؒ اور اِس کے مانند، ایسی شروح میں متن کا لکھنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اِن شروح کا مقصد ایسے مقامات کو حل کرنا ہوتا ہے جس کی شرح کرنا ضروری ہے؛ لیکن اِس کے باوجود بعضے نسخوں میں کتاب لکھنے والے حضرات، ناظرین وقارئین کی سہولت کے خاطر پورے متن کو بتمامہٖ لکھتے ہیں ، یا متن کو حاشیہ میں لکھتے ہیں ، (جیسا کہ آپ نے اکثر کتبِ مصریہ میں دیکھا ہوگا)، اِن شروحات کے فوائد کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ ۳-شرح ممزوج: جس میں متن اور شرح کی عبارت ممزوج اور ملی ہوئی ہوتی ہے، جس سے متن کا امتیاز دو طرح سے کیا جاتا ہے: [۱] م، ش کے ساتھ، کہ م:… سے مراد متن ہے، اور ش:…سے شرح۔ [۲]متن پر خط کھینچ دیتے ہیں ، اور یہی طریقہ اکثر شُراحِ محقِّقین متأخِّرین وغیرہ کا ہے، (اور یہی طریقہ حضرت مَولانا مولوی عبدالرحمٰن جامی ؒ کی الفوائد الضیائیہ شرحِ کافیہ، شرحِ چغمینی اور شرح نخبۃ الفکر في أصول الحدیث میں ہے)؛ لیکن یہ طریقہ خلط ملْط اور غلطی سے مأمون نہیں ہے۔ الشَّرطُ: باب العین کے تحت ’’علت‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ شرط الشيء: ھوَ تعلیقُ شيئٍ بشيئٍ، بحیثُ إذا وُجدَ الأوَّلُ وُجدَ الثانيْ۔ وقیلَ: الشَّرْطُ: ما یَتوقفُ علیہِ وجودُ الشيئِ، ویکونُ