دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
ہے جو صاحبِ معنیٰ (جزئی )کے ساتھ دیگر جزئیات کی شرکت سے مانع ہو، (جیسے: زید کی ’’بڑی آنکھیں ، چپٹی ناک اور چوڑی پیشانی‘‘؛ یہ چیزیں زید کو افرادِ انسانی سے جدا کرنے والی ہیں ۔)(۱)۔ الملاحظۃُ:الجُزئيُّ إِذا لمْ یَکنْ لہٗ ماہیَّۃٌ کُلیَّۃٌ، فإنَّہٗ یَتعینُ بِنفسِہٖ، کالوَاجبِ تَعالیٰ؛ وَإِنْ کانَتْ لہُ(ماہیۃ کلیۃ)، فَیکونُ مُتعیَّناً بمُشخَّصاتِہِ الزَّائِدۃِ عَلَی الطَّبیْعَۃِ الکلِّیۃِ،کالوَضْعِ وَالأینِ۔(دستورالعلماء ۱/ ۳۳۵) ملاحظہ: اگر کوئی جزئی ایسی ہو جس کی ماہیتِ کلیہ ہی نہ ہوتو وہ جزئی بہ ذاتِ خود متعیَّن ومتشخص ہوجائے گی، جیسے: واجب الوجود، کہ اِس کی ماہیتِ کلیہ نہیں ہے؛ اور اگر اُس جزئی کی ماہیتِ کلیہ بھی ہو تو اُس وقت یہ جزئی اپنی ماہیتِ کلیہ سے زائد عوارض واحوال سے متعین ہوجائے گی،(مثلاً: زید (جزئی) ایک ماہیتِ کلیہ (انسان) کے تحت ہے جس کی بہت سی جزئیات ہیں ، جو تمام آنکھ، کان، ناک، منھ وغیرہ میں شریک ہیں ؛ پھر اِن تمام افراد سے زید کا امتیاز مثلاً: آنکھ کا بڑا ہونا، بھنووں کا متصل یا منفصل ہونا، ناک کا بلند یاچپٹا ہونا وغیرہ سے ہوا، اِن کو ’’زید کے تشخصات‘‘ کہتے ہیں )۔ الشرح: اِعلمْ! أَنَّ کُتبَ الفقہِ وَغیرِہِ مُنقسِمۃٌ عَلیٰ ثَلاثِ مَراتبَ: المُتونُ، وَالشُّروحُ، وَالفَتاویٰ۔ (۱)تشخص: اُن عوارض کو کہتے ہیں جن کے ذریعے ایک حقیقت کے اَفراد کے درمیان ایک دوسرے سے امتیاز ہوتا ہے، جیسے: کالا، گورا، موٹا، پتلا وغیرہ کے ذریعے اَفرادِ انسان مثلاً: زید، عمر، بکر وغیرہ میں امتیاز ہوجاتا ہے، جن کی بنا پر ایک دوسرے کے درمیان اشتباہ نہیں ہوتا۔ (توضیح المنطق:۱۹)