دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
الشاہد: باب المیم کے تحت ’’مثال‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ الشُبْھۃ: ھُو مَا یَشبَہُ الشيئَ الثَابتَ وَلیسَ بثابَتٍ فيْ نفسِ الأَمرِ۔ قالَ السیِّدُ: ھُوَ ما لمْ یُتیَقَّنْ کونُہ حَراماً أوْ حَلالاً۔ (التعریفات الفقہیۃ:۱۱۹) شبہ: وہ مبہَم اور غیر واضح چیز جو واضح چیز سے مشتبہ ہو، حالاں کہ حقیقت میں غیر محقَّق(غیرموجود) ہو۔ شبہ: (شریعت کی اصطلاح میں ) غیر واضح الحکم چیز جس کی حلَّت وحرمت یقنی طور پر واضح نہ ہو۔ فائدہ: شبہ کہتے ہیں مشابہِ حقیقت کو، اور مشابہ کے لیے کوئی وجہِ شبہ ہوتی ہے، اور اِس کے مراتب مختلف ہیں : کبھی مشابَہت قوی ہوتی ہے اور کبھی ضعیف۔ (تحفۃ العُلَما ۲/۱۹۵) الشخص: إنَّ الحَقیقَۃَ إنْ کانَتْ مَلحُوظَۃً مَعَ التَّقیِیْدِ والقَیْدِ فہِيَ ’’الفَرْدُ‘‘، وإنْ کانتْ مَلحُوظۃً مَعَ التَّقییْدِ فقطْ فہي ’’الحِصَّۃُ‘‘، وإنْ کانتْ مَلحُوظۃً مَعَ القَیدِ فقَطْ فہِيَ ’’الشَّخْصُ‘‘؛ وعَلَی التَّحقِیقِ أنَّ الشَّخْصَ ہوَ مَعرُوضُ التَّشَخُّصِ۔ وہٰذَا ہُوَ الفَرقُ بَینَ الفَردِ والحِصَّۃِ والشَّخْصِ عِندَہمْ۔ (دستور العلماء۳/۱۹) ماہیت کو جب کسی قید کے ساتھ لیا جاتا ہے تو تین صورتیں ہوتی ہیں : حصہ، فرد اور شخص۔ =حدیث شریف کا بھی ہے۔ اور شانِ ورود کا استعمال صرف احادیثِ نبویہ کے ساتھ مخصوص ہے، گویا دونوں میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے، لا عکس، تو ہر شانِ ورود شانِ نزول ہوگا نہ کہ عکس۔ (آئینۂ اصطلاحات العلوم:۱۲۴)