دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
لہٗ۔(دستور العلماء ۳/۴۵۷) نادر: وہ چیز جس کا وجود گاہے گاہے ہو(یعنی نادر الوقوع)، چاہے وہ موافقِ قِیاس ہو یا مخالفِ قِیاس۔ الملاحظۃُ: الفرقُ بینَ الشاذِّ وَالنَّادِرِ وَالضعیفِ: ھُوَ أنّ الشاذَّ یکونُ في کلامِ العرَبِ کثیراً؛ لکنْ بِخلافِ القِیاسِ۔ وَالنادرُ: ھوَ الذيْ یکونُ علَی القِیاسِ۔ والضَعیفُ: ھوَ الذيْ لمْ یَصِلْ حکمُہٗ إِلَی الثُّبوتِ۔ (کتاب التعریفات:۱۲۶) شاذ، نادر اور ضعیف میں فرق: کلامِ عرب میں شاذ کا استعمال باوجود خلافِ قِیاس ہونے کے بہ کثرت ہوتا ہے۔ نادر: موافقِ قِیاس (ضرور) ہوتا ہے؛ لیکن قلیل الاستعمال ہوتا ہے۔ اور ضعیف: جو پایۂ ثبوت کو نہ پہنچا ہو۔ الحاصل: شاذ خلافِ قِیاس ہوتا ہے، اور’’نادر‘‘ موافقِ قِیاس بھی ہوتا ہے (۱)۔ الشَّأنُ: ھُوَ مَضمونُ الکلامِ، وَیُنسَبُ إلیہِ ضمیرٌ یُسمّٰی ضَمیرَ الشَّانِ۔ (کتاب التعریفات حاشیہ:۱۳۲) شان: کلامِ عرب میں چھُپے ہوئے معانی ومطالب، اِسی مضمونِ کلام کی طرف ایک ضمیر منسوب ہوتی ہے جس کو ضمیرِ شان سے تعبیر کیا جاتا ہے(۲)۔ (۱)شاذ کا محمِل: لفظِ شاذ تین معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے: [۱] خلافِ قِیاس: کوئی کلمہ قاعدے کے خلاف ہواور استعمال کے مطابق ہو۔ [۲] غیرفصیح :قاعدے کے مطابق ہو اور استعمال کے خلاف ہو، اور یہ دونوں مقبول ہیں ۔ [۳] قلیل الاستعمال:دونوں کے خلا ف ہو اور یہ غیر مقبول ہے۔ (قواعد الصرف،بتقدیم :۲۵) (۲)شانِ نزول، شانِ ورود: شانِ نزول کا استعمال آیتِ قرآنی واحادیثِ نبویہ دونوں میں عام ہے، چناں چہ دستور معروف ومشہور ہے کہ، ایک ہی شانِ نزول آیتِ شریفہ کا ہے اور وہی شانِ نزول =