دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
تک کے فقہا پر سَلف کا اطلاق ہوتا ہے(۱)۔ الخَلَفُ: مِنْ مُحمَّدِ بِنْ الحَسَنِ إلیٰ شَمسِ الأئمَّۃِ الحُلواني۔ خلف: امام محمد بن الحسن الشیبانی سے شمس الائمہ حُلوانی تک کے فُقہا پر خَلف کا اِطلاق ہوتا ہے۔ عامَّۃُ المَشائخ: یُقصَدُ فُقھَائُ المَذھبِ الحَنفِيِّ بعَامَّۃِ المَشائخِ أکثرُھمْ؛ فإذَا قَالوْا عَنْ قَولٍ أوْ رَأيٍ: ذَھَبَ إِلیْہِ عَامَّۃُ المَشَائخِ مَثَلاً، فالمَعنیٰ أنَّ أکثرَھمْ عَلیٰ ذلکَ۔ عامۃ المشایخ: فقہائے احناف کسی قول کے بارے میں جب یہ فرماتے ہیں کہ: ’’اس قول کی طرف عام مشائخ گئے ہیں ‘‘، تو ایسے مواقع میں عام فقہاء کی رائے بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ المتقدمون والمتأخرون: قالَ الذَھَبِيُّ: الحَدُّ الفَاصلُ بَیْنَ العُلمائِ المُتقدِّمِیْنَ وَالمُتأَخِّرینَ رَأْسُ القَرْنِ الثَّالِثِ، وَھوَ الثَّلٰثُ مِأۃٍ۔ (آپ فتوی کیسے دیں ؟۳۷) متقدمین ومتأخرین: علامہ ذہبیؒ نے فرمایا ہے: علمائے متقدمین ومتأخرین کے مابین حدِّ فاصل تیسری صدی کی انتہاء ہے، یعنی تین سَو سال(رأس بہ معنیٰ: کنارہ، انتہاء)۔ (۱) فائدہ: (عرفِ عام میں ) سلف اُن اکابر کو کہتے ہیں جو حضورا کے زمانے سے لے کر پانچ سَو ہجری کے اندر گزرے ہیں ، اور پانچ سَو ہجری سے لے کر جو اَکابر گزرے ہیں اور قِیامت تک ہونے والے ہیں ، اُنھیں ’’خَلَف‘‘ کہتے ہیں ۔ (مآرب الطلبہ:۴۲)