دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
المتأخرون: المُتأخّرونَ مِن شَمسِ الأئمَّۃِ الحُلوَاني إلیٰ مَولانَا حَافظ الدِّینِ مُحمَّدِ بنِ مُحمَّدِ البُخَارِي [المتوفی سنۃ:۶۳۰]۔ متأخرین: شمس الائمہ حلوانی سے حافظ الدین بخاری تک کے فُقَہا پر متأخِّرین کا اِطلاق ہوتا ہے۔ الملاحظۃ:قالَ اللکنَوِيْ: وظَنِّي أنَّ ھٰذا بحَسبِ الأکثرِ، لاعَلَی الإطْلاقِ۔ (دستور العلماء۲/۱۲۹؛ النافع الکبیر، بحوالۃ:الخلاصۃ البھیۃ:۴۱) علامہ لکھنویؒ فرماتے ہیں : میرے علم کے مطابق یہ قاعدۂ کلیہ نہیں ہے؛ بلکہ قاعدۂ اکثریہ ہے۔ السَّماعي:في اللغۃِ: ما نُسِبَ إلیہِ السَّماعُ۔ وَفيْ الاصطلاحِ: ھُوَ مالمْ یُذکرْ فیہِ قاعدۃٌ کلِّیَّۃٌ مُشتملۃٌ علیٰ جزئِیَّاتِہِ۔ (کتاب التعریفات:۱۲۳) سَماعی: لغوی معنیٰ: روایتی اور سینہ بہ سینہ منقول چیز۔ اصطلاحی معنیٰ: وہ مسائل ہیں جن کے لیے جزئیات پر مشتمل قاعدۂ کلیہ ذکر نہ کیا جائے۔ المُطَّرِدُ: ھُوَ مِنْ القَواعدِ مَا یَتبَعُ بَعضُہٗ بَعضاً دوْنَ شُذوذٍ، وَالمُطَّرِدُ أیضاً ھوَ القِیاسيُّ۔ (موسوعۃ: ۶۳۲) مطرد: وہ مسائل ہیں جو بغیر مخالَفتِ اصول ایک دوسرے سے ملحَق اور تابع ہوں ،(الغرض! مسائل قِیاسیہ وہ مسائل کہلاتے ہیں جو کسی قاعدۂ کلیہ سے نکلیں اور اس قاعدے کے خلاف نہ ہوں )۔ السَّمعُ: باب الحاء کے تحت ’’حاسہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔