دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
وَالثاني: بتقدیمِ أَداتِ النفيِ علیٰ أَداتِ العُمومِ، نحوُ: لمْ یکُنْ کُلُّ ذلکَ۔ (سفینۃ البلغاء:۵۴) عمومِ سلب اور سلبِ عموم کی تعیین: عمومِ سلب: اَدات عموم کو اداتِ نفی پر مقدّم کرنے سے حاصل ہوتا ہے، جیسے: کلَّ الدراہمِ لمْ آخذْ: مَیں نے ایک بھی درہم نہیں لیا۔ سلبِ عموم: اداتِ نفی کو اداتِ عموم پر مقدّم کرنے سے حاصل ہوتا ہے، جیسے: لمْ یکنْ کلُّ ذلکَ، یہ سارا معاملہ نہیں ہوا۔ دوسری مثال: لمْ یقُمْ کلُّ إنسانٍ: جملہ افرادِ انسان کھڑے نہیں ہوئے۔ خلاصۂ کلام: عمومِ سلب میں مسند الیہ کے ہر ہر فرد سے حکم کی نفی ہوتی ہے، اور سلبِ عموم میں افرادِ مسند الیہ کے مجموعے سے حکم کی نفی ہوتی ہے۔ السَّلَفُ:کثیراً مَّا یُطلِق الحَنفیَّۃ في کُتُبِھم: ’’ھٰذا قَولُ السَّلَف‘‘، ’’وھٰذا قَولُ الخَلَف‘‘، و’’ھٰذا قَولُ المُتَقَدِّمِین‘‘، و’’ھٰذا قَولُ المُتَأَخِّرین‘‘۔ علمائے اَحناف اپنی کتابوں میں بلا تعیین تحریر فرماتے ہیں : ھٰذا قولُ السَّلفِ، وھٰذَا قولُ الخلَفِ؛ وھٰذا قَولُ المُتقدِّمینَ، وھٰذا قَولُ المُتأخِّرِینَ،چناں چہ ہر ایک کی مراد حسبِ ذیل ہے: والسَّلَفُ: کل من تقدَّمَ مِن الآبَائِ والأقرِبائِ۔ وعندَ الفُقہَائِ: ہُمْ مِن أبيْ حَنیفَۃَ إلیٰ مُحمَّدِ بنِ الحَسنِ۔ سلف: (عرفِ عام) میں گذرے ہوئے آباء اَجداد، اَعزَّہ واَقرِباء۔ سلف: فُقَہا کے نزدیک، امام اعظم ابوحنیفہؒ سے امام محمد بن الحسن الشیبانی