دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
چیزیں صرف اَعراض کے قبیل سے ہوتی ہیں ، نہ کہ جواہر کے قبیل سے(۱)۔ السلامُ: باب الصاد کے تحت ’’صلاۃ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ سلب العموم: ہوَ رَفعُ الإِیْجابِ الکليِّ، مثلُ: لَیسَ کلُّ حَیَوانٍ إِنْسانٌ؛ وَہوَ یَصْدُقُ عندَ الإِیجابِ الجُزئِيِّ۔ وَالفرقُ بینَ عُمومِ السَّلبِ وَسلبِ العُمومِ: أَنَّ سلبَ العُمومِ أعمُّ مُطلقاً مِن عُمومِ السَّلبِ، فَکلُّ مَوضِع یَصدُقُ فیہِ عُمومُ السَّلبِ یَصدُقُ فیہِ سلبُ العُمومِ، منْ غیرِ عکسٍ کليٍّ۔(دستور العلماء۲/۲۱۰) سلبِ عموم: ایجابِ کلی کی نفی کرنا، جیسے: ’’ہر جاندار انسان ہو‘‘ ایسا نہیں ہے؛ بلکہ بعضے جاندار انسان ہیں (موجبہ جزئیہ)۔ گویا سلبِ عموم کے موقع پر موجبہ جزئیہ صادق آئے گا۔ فائدہ: عمومِ سلب اور سلبِ عموم کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے، جس میں سلبِ عموم عام ہے اور عمومِ سلب خاص ہے، گویا جہاں جہاں عمومِ سلب (نفی میں عموم) پایا جائے گا وہاں سلبِ عموم(عموم کی نفی کا ہونا) پایا جائے گا؛ لیکن جہاں کہیں سلبِ عموم (عموم کی نفی) ہو وہاں عمومِ سلب (نفی میں عمومیت) ہونا ضروری نہیں ہے۔ الملاحظۃُ: النصُّ علیٰ عُمومِ السَّلبِ وَسلبِ العُمومِ: فالأَوَّلُ یکونُ بتقدیمِ أَداتِ العُمومِ علیٰ أَداتِ النفيِ، نحوُ: کُلَّ الدَّراھِمِ لمْ آخُذْ۔ (۱) ملاحظہ: جوہر: (فلاسفہ کے نزدیک) وہ شیٔ جو قائم بالذات ہو، عرض: وہ شیٔ جو دوسرے کے ساتھ قائم ہو، یعنی دوسرے کے سہارے کی محتاج ہو۔