دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِيَ مُؤْمِناً وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ والمُؤْمِنَاتِ}۔ [نوح: ۲۸] وفائدَتُہُ: شُموْلُ بَقیَّۃِ الأفْرَادِ والاہْتِمَامِ بالخَاصِّ، لذِکْرِہِ ثانِیاً فيْ عُنْوانٍ عامٍّ بَعدَ ذِکرِہِ أوَّلاً فيْ عُنْوانٍ خَاصٍّ۔(جواہر البلاغۃ:۱۴۲) ذکر العام بعد الخاص: لفظِ خاص کے بعد عام کو بیان کرنا، جیسے باری تعالیٰ کا فرمان: {رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِيَ مُؤْمِناً وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ والمُؤْمِنَاتِ} اے میرے رب! مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مؤمن ہونے کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہو اُن کو، اور تمام مسلمان مَردوں اور عورتوں کو بخش دیجیے۔ اِس صنعت کا فائدہ: بقیہ افراد کا خاص کے حکم میں شریک ہونے کو بیان کرنا، اور لفظِ خاص کو خصوصیت سے ذکر کرنے کے بعد لفظِ عام میں اُس کی اہمیَّت کو اُجاگر کرنے کے لیے بہ صورتِ عموم ذکر کرنا۔ الذِّہْن:ہِيَ القُوَّۃُ المُعِدَّۃُ لاِکتِسَابِ التَّصَوُّرَاتِ وَالتَّصدِیقَاتِ۔ (کشاف۲؍۱۶۰) ذِہن: نفس کی وہ قوت ہے جس کو مُنعِمِ حقیقی نے علومِ تصوریہ وتصدیقیہ کے حصول کے لیے بنایا ہے۔ ملاحظہ: ذِہن: علمی اصطلاح میں مختلف نفسیاتی احوال کو محسوس کرنے والی طاقت کا نام ’’ذہن‘‘ ہے، نیز ذِہن کا اطلاق تفکیر اور اُس کے ضوابط پر بھی ہوتا ہے، اِسی طرح ادراکِ اشیاء کی استعدادِ محض کا نام بھی ذِہن ہے۔ (القاموس الوحید) الذّوق: باب الحاء کے تحت ’’حاسہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ خخخخخ