دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
طَلْقۃً واحدۃً بوِلادَۃِ ذکَرٍ، وَطلْقتَینِ بولادۃِ أُنثیٰ، فولدتْھُمَا ولمْ یُدرَ الأوَّلُ، طُلِّقتْ الزَّوجۃُ واحدۃً قضائً، وَثِنتَینِ تَنزُّھاً، أيْ دِیانۃً؛ یَعنيْ فیمَا بینَہٗ وبینَ اللّٰہِ تَعالیٰ۔کمَا ذَکرَہُ المُصنِّفُ وَغیرُہ۔ (کشاف اصطلاحات الفنون۲/۱۴۱) دِیانت: (فقہاء کے نزدیک) دیانت، تنزُّہ اور ما بینہ وبین اللہ الفاظِ مترادفہ میں سے ہیں ، جیسے: قضاء، حکم اور شریعت الفاظِ مترادفہ میں سے ہیں ۔ دِیانت وقضاء کو ایک مثال سے سمجھا جا تاہے کہ: اگر شوہر نے بیوی کے بچہ (مذکر) جننے پر ایک طلاق اَٹکائی تھی، اور بچی جننے پر دو طلاقیں اَٹکائی تھیں ۔ اب ہوا یہ کہ عورت نے بچہ اور بچی دونوں کو جَنا، اور اِس بات پر واقفیت نہ ہو سکی کہ، پہلا کون تھا؟ تو عورت پر قضاء ً(فیصلۂ حاکم سے) ایک طلاق واقع ہوگی، اور دیانۃً (بہ طورِ حفاظت وبراء ت) دو طلاقیں واقع ہوگی۔ اِس مسئلے کی تفصیل ہدایہ(۲؍۲۸۷) باب الأیمان في الطلاق میں ملاحظہ فرمائیں (۱)۔ (۱)فائدہ: دیانت: لائقِ عبادت ماننا۔ قضاء: فیصلہ کرنا۔ التَّنزہ: محفوظ وبری ہونا، پاک صاف ہونا۔ مابینہ وبین اللہ: اللہ اور بندے کے بیچ کا معاملہ۔ قضاء: حکمِ خدا، مشیتِ ایزدی، فرمانِ الٰہی۔ شریعت:قانونِ الٰہی، مذہبی قانون۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے فرمایا کہ: ’’دیانت‘‘ کا عام طور پر یہ مطلب لیا گیا ہے کہ، وہ معاملہ جو بندے اور خدا کے درمیان ہو، اور ’’قضا‘‘ وہ ہے کہ جو بندے اور عام لوگوں کے درمیان ہو۔ بعض عُلَما نے اِس سے سمجھا کہ، جب تک کوئی چیز صرف بندے اور خدا تک محدود ہے وہ ’’دیانت‘‘ میں آئے گی، اور اگر کوئی تیسرا بھی اُس پر مُطَّلع ہو تو دیانت سے نکل کر ’’حدودِ قضاء‘‘ میں داخل ہو جائے گی۔ مَیں (حضرت شاہ صاحب) کہتا ہوں کہ: یہ صحیح نہیں ہے، چوں کہ ’’دیانت‘‘ اور ’’قضاء‘‘ کا فیصلہ شہرت اور =