دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
التسلسل: ترتُّبُ أُموْرٍ غیرِ مُتنَاہِیَۃٍ مُجتمِعۃٍ في الوجوْدِ۔ (دستور العلماء:۱،۳۳۲) تسلسل: امورِ واقعیہ غیر متناہیہ (جن کی انتہا نہ ہو)کا اس طور پر مرتب ہونا کہ وہ تمام وجود میں مجتمع ہوں (۱)۔ الدِّیانۃُ: عندَ الفُقَہائِ ھيَ، و’’التنزُّہُ‘‘، و’’مَابَینَہ وَبینَ اللّٰہِ تَعالیٰ‘‘ ألفاظٌ مُتَرادِفۃٌ، کـ’’القَضائِ‘‘ وَ’’الحکمِ‘‘ و’’الشرع‘‘۔ وفيْ جامعِ الرُّموزِ (فيْ کتابِ الطَّلاقِ، فيْ فصلِ شرْطِ صحَّۃِ الطَّلاقِ): إنْ علَّقَ الزَّوجُ (۱) امورِ اعتباریہ(وہ چیزیں جن کومضبوط اور پختہ وجود کے بغیر عقل مان لے) کا غیر متناہی طور پر مجتمع ہونا مُحال نہیں ہے؛ اس لیے کہ امورِ اعتباریہ کا تسلسل اعتبارِ معتبر کا محتاج ہے، لہٰذا جب بھی اعتبارِ معتبر کا انقطاع ہوگا اُسی وقت وہ تسلسل ٹوٹ جائے گا، جیسے: لازم وملزوم میں جو علاقۂ لزوم ہوتا ہے وہ بھی لازم ہے -ورنہ لازم وملزوم میں انفکاک لازم آئے گا- پس اُس لزوم کے لیے بھی لزوم لازم ہے ہٰکذا الیٰ غیر النہایۃ، یہ تسلسل ضرور ہے؛ لیکن ’’لزوم‘‘ چونکہ معانیٔ اعتباریہ میں سے ایک معنیٰ ہے، جب تک ذہن اس کا اعتبار نہ کرلے یہ موجود نہیں ہوتا، لہٰذا یہ تسلسل باطل نہ ہوگا۔ (ملخص من شروح سلم)۔ ملحوظہ:امورِ اعتباریہ: وہ چیزیں ہیں جن کو مضبوط اور پختہ وجود کے بغیر عقل مان لے۔ امور اعتباریہ کی دو قسمیں ہیں : امورِ اعتباریہ واقعیہ: وہ چیزیں ہیں جن کو خارج میں موجود چیزوں سے عقل نے منتزع کیا ہو، جیسے: آسمان سے فوقیت اور زمین سے تحتیت کو منتزع کیا گیا ہے۔ امورِ اعتباریہ واقعیہ بہ حکمِ امور حقیقیہ ہوتے ہیں ۔ امورِ اعتباریہ محضہ: وہ چیزیں ہیں جن کو قوتِ واہمہ نے گھڑ لیا ہو، یعنی نہ وہ خود موجود ہوں نہ اُن کا منشأ انتزاع موجود ہو، جیسے: چڑیل کے دانت اور دوسرا انسان۔(معین الفسلفہ ص:۴۲) ملحوظہ:افرادِ مجتمعہ غیر متناہیہ کا اِس طرح مرتب ہونا اگر (غیرمتناہی طور پر) چلتا رہے گا تو اُس کو ’’تسلسُل‘‘ کہتے ہیں ، اور اگر یہ سلسلہ عود کرے گا تو اُس کو ’’دَور‘‘ کہتے ہیں ۔