دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
الآخرِ، وَیلزمُہٗ تَوقُّفُ الشَّيئِ عَلیٰ مَا یتوقَّفُ علیہِ۔(دستور العلماء ۲/۱۲۹) دَور: (مناطقہ کے نزدیک) دو چیزوں میں سے ہر ایک (کا سمجھنا) دوسرے پر موقوف ہونا، (یعنی دونوں میں سے ہر ایک موقوف بھی ہو اور موقوف علیہ بھی)، اور اُس سے شیٔ کا اپنے موقوف علیہ پر موقوف ہونا لازم آئے گا، (جیسے: مکہ کی جہت کا سمجھنا موقوف ہو مدینہ کی جہت سمجھنے پر،اور مدینہ کی جہت کا سمجھنا مکہ کی جہت کے سمجھنے پر موقوف ہو)۔ الدور المُصرَّحُ: ہوَ تَوقُّفُ الشَّيئِ عَلیٰ مَا یتوَقَّفُ عَلیہِ، ویُسمّٰی: ’’الدَّورُالمُصَرَّحُ‘‘، کما یتَوقَّفُ (أ) عَلیٰ (ب)، وبالعَکسِ؛ أو بمَراتِبَ، ویُسمّٰی ’’الدَّور المُضمَرُ‘‘، کمَا یتوَقفُ (أ) عَلیٰ (ب) وَ (ب) عَلیٰ (ج) و (ج) عَلیٰ (أ)۔ (کتاب التعریفات:۷۶ب) دَور کی دو قِسمیں ہیں : دَورِ مصرّح، دَورِ مضمر۔ دَورمُصرَّح: وہ دَور ہے جس میں شیٔ اپنے مَوقوف علیہ پر (بیک درجہ) موقوف ہو(یعنی ایک ہی مرتبہ میں بات پلٹ جائے)، جیسے، مثلاً: الف کا سمجھنا باء کے سمجھنے پر موقوف ہو، اور باء کا الف پر(واضح دور )۔ دَور مضمر: وہ دَور ہے جس میں توقُّف چند مرتبوں پر ہو، جیسے: الف کا سمجھنا باء کے سمجھنے پر موقوف ہو، اور باء کا جیم پر، اور جیم کا الف پر(مخفی دور)۔(۱) (۱) توقف الشیٔ علی نفسہ، ایک شیٔ کا سمجھنا خود اُسی پر موقوف ہو، جیسے:مثلاً خاصہ کی تعریف مایختص بہ سے کریں ، تویہ دَور کو مُستلزِم ہے اور ’’دَور‘‘ باطل ہے؛ لہٰذا ایسی جگہ کچھ نہ کچھ فرق نکالنا ضروری ہوگا چاہے اعتباری ہی فرق کیوں نہ ہو، مثلاً: یوں کہیں کہ خاصہ سے اصطلاحی تعریف مراد ہے، اور ’’مایختص بہ‘‘ سے لغوی تعریف۔ (مشکل ترکیبوں کا حل ص:۳۱۳)