دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
القِدم الذاتي: وَھوَ کَونُ الشَّيئِ غَیرَ مُحْتاجٍ فيْ وُجودِہِ إِلَی الغَیرِ۔ وَھوَ مُنْحصِرٌ فيْ ذاتِہِ تَعالیٰ وَیُقابِلہٗ الحُدوثُ الذَّاتِيُّ۔ القِدَم الزَّماني: وَھوَ کَونُ الشَّيئِ غَیرَ مَسْبوقٍ بالعَدمِ، وَیُقابِلہٗ الحُدوثُ الزَّمانيُّ۔ (دستورالعلماء۳/۶۸) قِدم: (بہ معنیٰ: پہلے زمانے ہی سے، پُرانا پن) کی بھی دو قِسمیں ہیں : قدمِ ذاتی: چیز کا اپنے وجود میں غیر (علتِ تامہ یاعلت ناقصہ) کا محتاج نہ ہونا؛ قدمِ ذاتی صرف ذاتِ حق سبحانہ وتقدُّس میں منحصِر ہے، اِس کا مقابل: حدوثِ ذاتی (محتاج اِلی الغیر) ہے۔ قِدمِ زمانی: چیز کا مسبوق بالعدم نہ ہونا ، (یعنی وجود پر عدم، سبقت کیے ہوئے نہ ہو)، اِس کا مقابل: حدوثِ زمانی (نیست کے بعد ہست) ہے(۱)۔ الحاسَّۃُ: ھيَ القوَّۃُ التيْ تُدرِکُ الجزئیاتِ الجِسْمانیَّۃَ؛ والحواسُّ ظاھرۃٌ وَباطنَۃٌ؛ وکلٌّ منھمَا خمسٌ بالوِجدانِ، فالمجموعُ عشَرٌ۔ الحواسُّ الظاھرَۃُ: ھيَ السَّمعُ، والبَصَرُ، والشَّمُّ، والذَّوقُ، واللَّمسُ۔ حاسَّہ: وہ فطری قوت ہے جو جسم پر پیدا ہونے والے محسوسات(کیفیات واحوال) کا ادراک کرے، (اِس کی جمع ’’حواسٌّ‘‘ ہے)۔ (۱) الحاصل:قدیم بالذات وہ ہے جس کا وجود بوجہِ واجب الوجود ہونے کے لذاتہٖ ہو، یعنی غیر کا محتاج نہ ہو، یہ قِسمِ قدیم صرف ایک ہی ذات الٰہی میں منحصر ہے،اور قدیم بالزمان:جس کے زمانۂ موجود سے پہلے زمانہ نہ ہو، جیسے اَفلاک،عقولِ عشرہ وغیرہ(علیٰ زعم الفلاسفۃ)۔ اور حادث بالذات:جس کا وجود بوجہِ امکان ذاتی نہ ہو؛ بلکہ غیر کا محتاج ہو،جیسے جملہ ممکنات۔ اور حادث بالزمان:جس کے زمانۂ موجود سے پہلے بھی زمانہ موجود ہو،جیسے: اَجسام مرکبہ۔ (معین الحکمۃ:۵۲)