دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
جوابِ الزامی: وہ جواب ہے جو محض فریقِ مخالف کے نزدیک مسلم ہو، چاہے وہ دلیل خصم کامستدل ہو یا نہ ہو؛ بنابریں جوابِ الزامی میں یوں کہا جاتا ہے: (اے مخالِفین!) یہ جواب تمھارے خَیال کے مطابق ہے نہ کہ ہمارے خَیال کے مطابق(۱)۔ جوابِ ماہو: باب الحاء کے تحت ’’حقیقت‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ (۱) اِسی کو حضرت تھانویؒ اِس طرح تحریر فرماتے ہیں :جوابِ تحقیقی کے یہ معنیٰ ہے کہ، کسی نے جو کچھ پوچھا جواب میں اُس کی حقیقت کو واضح کردیا۔اورجوابِ الزامی کے یہ معنیٰ ہے کہ، جو اعتراض ہم پر کسی نے کیا، ہم نے ویسا ہی اعتراض اُس کے مذہب پر کر دیا، کہ جو جواب ہمیں دوگے بعینہٖ وہی جواب ہماری طرف سے تمھارے اعتراض کا ہوگا۔ اب اِن دونوں میں سے ہر ایک کے لوازم وشرائط کو سمجھنا چاہیے، تحقیقی جواب کے لیے اپنے مذہب پر پورا عبور ہونا ضروری ہے، دوسرے کے مذہب پر پوری نظر ہونے کی ضرورت نہیں ، اور الزامی جواب کے لیے اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دوسرے کے مذہب پر بھی پوری نظر ہونی ضروری ہے۔ (تحفۃ العلماء ۲/۵۲۰ ) جواب کی دو قِسمیں اَورہیں : ایک قِسم تو یہ ہے کہ، سوال کو تسلیم کرکے جواب دیا جائے، اِس کو جواب ’’بہ طریقِ تسلیم‘‘ کہتے ہیں ۔ اور دوسری قِسم یہ ہے کہ، سوال ہی کا انکار کردیا جائے، اِس کو جواب ’’بہ طریقِ انکار اور علی سبیل الانکار‘‘ کہتے ہیں ۔ (مشکل ترکیبوں کاحل:۳۱۱)