دستور الطلباء |
لمی و فن |
تقابلِ تضایف: دو وجودی چیزوں کا باہم ایسا مقابل ہونا کہ اُن میں سے ایک کا سمجھنا دوسرے پر موقوف ہو، جیسے: اُبوّت وبُنوّت، کہ وہ دونوں ایک جگہ ایک ہی زمانہ میں ایک ہی جہت سے جمع نہیں ہوسکتے،(کہ زیدعمر کا ایک ہی زمانے میں باپ بھی ہو اوراسی عمر کا بیٹا بھی ہو)۔ ملاحظہ: ہاں ! زید میں دو الگ الگ جہتوں سے اُبوت وبنوَّت جمع ہوسکتی ہیں ۔ تَقابُل العَدَمِ والمَلَکَۃِ: کونُ الشیئینِ بحیثُ یکونُ أحدُہما وجودیًّا والآخر عدمیاً قابلاً للوجودي، کالعمَی والبصَرِ؛ فإن العمَی عدمُ البصرِ عمّا من شأنہِ أن یکونَ بصیراً۔ (ملخص من: دستور العلماء ومبادیٔ الفلسفۃ) تقابلِ عدم وملکہ: متقابلین میں سے ایک کا وجودی ہونا اور دوسرے کا اِس طور پر عدمی ہونا کہ عدمی میں وجودی کی صلاحیت ہو(۱)، جیسے: بینا اور نابینا؛ (اول وجودی ہے اور دوم عدمی؛ کیوں کہ اُس کے مفہوم میں ’’نا‘‘ داخل ہے)؛ مگر نابینا وہی کہلاتاہے جو بینا ہو سکتاہو، (دیوار کو ’’نابینا‘‘ کو ئی نہیں کہتا)۔ تَقابُل الإیْجابِ والسَّلْبِ: کونُ النسبتَینِ متقابلتَینِ بحیثُ یکونُ إحداہما إیجابیّۃً والأخریٰ سلبیَّۃً، مثلُ: زیدٌ إنسانٌ، وزیدٌ لیسَ بإنسانٍ۔(دستور العلماء:۱) (۱)فائدہ: وجودی کامطلب یہاں یہ ہے کہ، نفی اُس کے مفہوم کا جزء نہ ہو خواہ وہ خارج میں موجود ہو یا نہ ہو، اور جمع نہ ہو سکنے کا مطلب یہ کہ، عقل اُن کے اجتماع کو درست قرار نہ دے، نفس الامر میں اجتماع کا محال ہو نا مرادنہیں ہے؛ کیوں کہ دو باتیں کبھی ایسی ہوتی ہیں کہ نفس الامر میں وہ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں ، جیسے: علم اور موت؛ مگر اِن دونوں میں کو ئی تقابل نہیں ہوتا؛ کیوں کہ عقل اُن کے اجتماع کو نادرست قرار نہیں دیتی۔