دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
التَّقَابُلُ: عدمُ إمکانِ اجتماعِ الأمرینِ في مَوضوعٍ واحدٍ من جھۃٍ واحدۃٍ۔ (دستور العلماء) تقابل: دو چیزوں کا اِس طور پر ہونا کہ اُن دونوں کا بہ یک وقت ایک ہی جہت سے کسی ایک محل میں اجتماع ناممکن ہو، (جیسے: سیاہی اور سفیدی،کہ یہ دونوں بہ یک وقت ایک ہی جہت سے ایک ہی محل میں مجتمع نہیں ہوں گے؛ البتہ مختلف جہتوں سے اجتماع ہو سکتاہے، اور جیسے: زید میں کسی کے اعتبار سے اُبوَّت ہے اور کسی کے اعتبار سے بنوَّت ہو تو یہ درست ہے)۔ تقابل کی چار قِسمیں ہیں : تقابلِ تضاد، تقابل تضایُف، عدم و ملکہ اور اِیجاب و سلب۔ تَقابُل التَّضاد: کونُ الشیئینِ الوجودِیّینِ مُتقابلینِ بحیثُ لایکونُ تعقُّلُ کلٍّ منہما بالقِیاسِ إلی الآخرِ، سوائٌ کانَ بینہما غایۃُ البعدِ والخلافِ -کالسَّوادِ والبَیاضِ- أوْ لا، کالحُمرۃِ والسَّوادِ۔ (دستور العلماء:۱) تقابلِ تضاد: دو وُجودی چیزوں کا باہم ایسا مقابل ہونا کہ اُن میں سے ایک کا سمجھنا دوسرے پر موقوف نہ ہو؛ چاہے اُن دونوں کے درمیان انتہائی بُعد واِختلاف ہو یانہ ہو، اول کی مثال: سیاہی اور سَفیدی، ثانی کی مثال: سیاہی اور سرخی ہے۔ تَقابُل التَّضایُف: کونُ الشیئینِ الوجودیینِ متقابلینِ، بحیثُ یکونُ تعقُّلُ کلٍّ منہما بالنسبۃِ إلی الاٰخرِ، کالأُبوّۃِ والبنوَّۃِ المتقابلتینِ باعتبارِ وجودہما في الخارج، في محلٍ واحدٍ، في زمانٍ واحدٍ، من جھۃٍ واحدۃٍ۔ (دستور العلماء:۱/۲۳)