دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
جس کے ذریعے ذہن میں ایسی صورت حاصل ہو جس کا نفس الامری (خارج) میں وجود بھی ہو، جیسے: انسان کی تعریف کرنا کہ، وہ حیوانِ ناطق ہے(یہاں خارج میں انسان کا وجود ہے)۔ تعریف بحسب الاسم: وہ تعریف حقیقی ہے جس میں صرف کسی صورتِ غیر حاصلہ کی تحصیل ہو اور اس کا وجود محض فنی اصطلاح ہونے کے اعتبار سے ہو، جیسے: کلمہ کی تعریف: الکلمۃ لفظٌ وُضعَ لمعنًی مُفردٍسے کرنا۔ فائدہ: اِس سے معلوم ہوا کہ، علوم میں جو تعریفات ہیں وہ ’’تعریفِ حقیقی بحسب الاسم‘‘ کے قبیل سے ہیں ؛(لیکن چونکہ خارج میں اِس کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے اِس جہت سے یہ تعریف بحسب الحقیقت نہ کہلائے گی)۔ التَّعْرِیفُ اللَّفْظي: تَعیِینُ صُورۃٍ منَ الصُّوَرِ المَخزُونَۃِ، وإحْضارُھا فيْ المُدرِکۃِ، والالتفاتُ الیْھا، وتَصورُّھا بأنَّھا مَعنیٰ ھذا اللَّفظِ۔(دستور العلماء ۱/ ۲۱۵ب) تعریفِ لفظی: قوتِ مدرِکہ(خَیال وحافظہ) میں خزانہ کی ہوئی صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو متعیَّن اور مستحضَر کرنا، اور یہ تصوُّر کرنا کہ یہی صورت اِس لفظ کی حقیقت ہے۔ جیسے لفظ اللہ کی تعریف کرنا کہ، وہ عَلَمٌ لِلذَّاتِ الوَاجِبِ الوُجُوْدِ المُسْتَجْمِع لجَمِیْع صِفَات الکَمَال ہے، یہ تعریف لفظی ہے۔ ہاں ! اس پر یہ اعتراض کرنا کہ آپ کی یہ تعریف مانع نہیں ؛ کیوں کہ وہ لفظ ’’خدا‘‘ پر بھی صادق آتی ہے؟ صحیح نہیں ؛ اِس لیے کہ تعریف لفظی میں معنیٔ موضوع لہ کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے، جس میں تعریف بالأعم بھی جائز ہے۔