دستور الطلباء |
لمی و فن |
التَّعَارُضُ: یُسمّٰی بـ’’المعارَضۃِ‘‘ وَالتناقُضِ، وہوَ (عندَ الأُصولِیِّیْنَ) کَونُ الدلیلینِ بحیثُ یَقتضيْ أحدُہما ثبوتَ أمرٍ والآخرُ انتفا.4ئَہٗ في محلٍ واحدٍ في زمانٍ واحدٍ، بشرطِ تَساوِیہِما في القوَّۃِ أو زِیادۃِ أحدِہما بوَصفٍ ہوَ تابعٌ۔ (التعریفات الفقہیۃ:۵۸) تعارض (ایک دوسرے کے مقابل ہونا) اِس کا دوسرا نام ’’مُعارَضہ‘‘ اور ’’تناقُض‘‘ بھی ہے۔ تعارض: وہ (اہلِ اصول کے نزدیک) دو دلیلوں کا بہ ایں طور ہونا ہے کہ، ایک دلیل کسی حکم کے پائے جانے کا تقاضہ کرے تو دوسری دلیل اُسی جگہ پر اور اُسی زمانے میں اِس حکم کے منتفی ہونے کا تقاضہ کرے، بہ شرطے کہ دونوں دلیلیں قوّت میں برابر ہوں یا کوئی کسی ایسے وصف سے زائد ہوجو تابع ہو۔ التَّعْرِیْضُ: (نوعٌ من الکنایۃِ یُعتمدُ في فھمہِ علی السِّیاقِ یُسمّٰی تعریضاً) وہو الإمالۃ منْ معنی الکلامِ إلی جانبٍ بأنْ یکونَ المرادُ من الکلامِ أمراً ویکونَ ذلکَ وسیلۃً إلی مرادۃِ أمرٍ آخرَ کما یفہمُ من قولکَ: لسْتُ أنا بزانٍ -بطریقِ التعریضِ-، کونُ المخاطبِ زانیاً۔ (دستور العلماء ۱/ ۲۱۹) تعریض: (کنایہ کی ایک قِسم ہے جس میں کوئی کلام بولا جائے اور اس سے دوسرا معنیٰ مراد ہو)جس مراد کو سمجھنا سِیاقِ کلام پر موقوف ہوتا ہے،کہ اس کلام سے متکلم کی کیا مراد ہے؟جیسے مخاطب کے زنا میں مبتلا ہونے کی طرف تعریض کرتے ہوئے آپ کا یہ کہنا: لَسْتُ أنَا بِزَانٍ میں بدکار نہیں ہوں ! کہنا اپنی