دستور الطلباء |
لمی و فن |
ملحوظ ماننا جس پر متعلقاتِ فعل یاشبہِ فعل دلالت کر رہے ہوں ۔ التَّضْمِیْنُ: (في البدیع) ہو أن یُضمّن الشاعرُ شیئاً من شعرِ الغیرِ بیتاً کان أوْ مافوقہُ؛ أوْ مصراعاً أوْمادونہُ، معَ التنبیہِ علی أنہ من شعرِ الغیرِ، إنْ لمْ یکنْ مشہوراً عندَ البُلغائِ۔ (دستور العلماء۱/۲۱۳)، مثل قول الشاعر: إِذَا ضَاقَ صَدرِي وَخِفْتُ العِدَا تَمَثَّلْتُ بَیْتاً بِحَالِيْ یَلِیْقُ للّٰہ أَبْلُغُ مَا أرْتَجِيْ وَبِاللّٰہِ أَدْفَعُ مَا لاَ أُطِیْقُ تضمین: (بُلَغا کے نزدیک) ایک شاعر کا دوسرے شاعر کے دو یازیادہ مصرعوں کو، یا ایک مصرع یا اُس سے کم حصے کو (اُس کی طرف منسوب کرتے ہوئے) اپنے شعر میں ملانا، بہ شرطے کہ غیر کا شعر بُلَغا کے نزدیک مشہور نہ ہو،جیسے:شاعر کا قول: ترجَمہ: جب میرا سینہ تنگ ہوتا ہے اور مَیں دشمنوں کا خوف محسوس کرتا ہوں تو اپنی حالت بیان کرتا ہوں ایک ایسے شعر سے جو میرے لیے زیادہ مناسب ہو۔’’ سو مَیں اللہ کی مدد سے اپنی مراد کو پاتا ہوں ، اور اللہ ہی کی مدد سے ایسے ضرر کو دُور کرتا ہوں جس کے دَفع کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے‘‘ (۱)۔ التطویل:بلغاء کی اصطلاح ہے، تفصیل باب الألف کے تحت ’’ایجاز، اطناب‘‘ کے ضمن میں اطناب کے حاشیے میں ملاحظہ فرمائیں ۔ (۱) اِس مثال میں شاعر نے دوسرے شعر کو اپنے کلام کا جزء بنایا ہے، حالاں کہ وہ شعر اُس کا نہیں ہے؛ البتہ یہ دوسرا شعر کلام کے ناقدوں اور زبان دانوں کے نزدیک مشہور نہ ہونے کی وجہ سے اُس نے اپنی شعر میں تمثَّلتُ بیتاً، کہہ کر اِس بات کی طرف تنبیہ کردی کہ، یہ شعر میرانہیں ہے، کسی اَور کا ہے۔