دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
التَّضَادُّ: کَوْنُ الشَّیئَیْنِ الوُجودِیَّیْنِ مُتقابلَیْنِ بِحیثُ لاَیَکونُ تَعقُّلُ کلٍ مِنہُمَا بالقِیاسِ إِلَی الآخَرِ کمَا بَینَ السَّوادِ والبَیاضِ۔(دستور العلماء۱/۳۵۹) تقابلِ تضاد: دو وجودی چیزوں کا باہم اِس طور پر مقابل ہونا کہ اُن میں سے ہر ایک کا سمجھنا دوسرے پر موقوف نہ ہو، جیسے: سیاہی اور سَفیدی۔ التَّضْمِیْنُ: (في النحو)اعلمْ أنَّ الفِعلَ إذا کانَ بِمعنیٰ فعلٍ آخرَ وَکانَ أَحدُہمَا یَتعدَّی بِحرْفٍ، وَالآخرُ بآخَرَ، فإِنَّ العَربَ قَدْ تَتَّسِعُ فَتوقِعُ أَحدَ الحَرفینِ مَوقعَ صَاحبِہِ، إیذاناً بأنَّ الفِعلَ فيْ مَعنَی ذلکَ الآخرِ، کَقولہِ تَعالیٰ:{أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَائِکُمْ}، فالرَّفثُ ہٰہنا فيْ مَعنَی الإِفْضائِ۔ (موسوعۃ النحو والصرف والاعراب) تضمین: جہاں ایک فعل کو (مجازاً)کسی دوسرے فعل کے معنیٰ میں استعمال کیا جائے، حالاں کہ دونوں فعلوں کے صلے الگ الگ ہوں ،تو ایسے مواقع میں اہلِ عرب وسعت سے کام لیتے ہیں ، چناں چہ ایک فعل کے صلہ میں دوسرے فعل کے صلہ (حرف جر) کو استعمال کرتے ہوئے اشارہ کرتے ہیں کہ، فعلِ مذکور دوسرے فعل کے معنیٰ میں مستعمل ہے، جیسے:باری تعالیٰ کافرمان: ’’روزہ کی شب میں اپنی بیبیوں سے مشغول ہونا حلال کردیا گیا ہے‘‘آیتِ بالا میں رَفث ( في کلامہ: فحش گوئی کرنا) کو الإفضاء الیہ: بہ معنیٰ پہنچنا، کے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے، اور قرینہ لفظ إلی ہے۔ خلاصۂ کلام: کسی فعل یا شبہِ فعل کے ساتھ دوسرے فعل یاشبہِ فعل کے معنیٰ کو