دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
ملاحظہ: علم بالکنہ اور بالوجہ میں باء برائے استعانت ہے جب کہ بکنہہ اور بوجہہ میں باء برائے مصاحبت ہے۔ التَّصَوُّفُ: تَجرِیدُ القَلبِ لِلّٰہِ تَعالیٰ، وَاِحتِقارُ مَا سِوَی اللّٰہِ تَعالیٰ۔(دستور العلماء۱/۳۳۹) تصوف: ماسوَی اللہ کو حقیر (ہیچ) سمجھتے ہوئے خانۂ دل کو اللہ تعالیٰ کی یاد کے لیے پاک کرلینا۔ = تصوُّر بالکُنْہ: کسی چیز کو اس کی ذاتیات کے ذریعے جاننا۔ بالفاظ دیگر: معرِّف، معرَّف کی حقیقت ہو اور حصولِ علم کا ذریعہ بھی ہو، جیسے: انسان کے تصور کے لیے ’’حیوانِ ناطق‘‘ کو ذریعہ بنائیں ۔ تَصوُّر بکُنْہِہ: کسی چیز کو اس کی ذاتیات کے ساتھ جاننا۔ بالفاظ دیگر: معرِّف معرَّف کی حقیقت تو ہو؛ لیکن حصولِ علم کا ذریعہ نہ ہو، جیسے: انسان کے تصور کے لیے ’’حیوانِ ناطق‘‘ کو ذہن میں لایا جائے؛ لیکن اُسے حصولِ علم کا ذریعہ نہ بنائیں ۔ تصوُّر بالوَجْہ: کسی چیز کو اس کی عرضیات کے ذریعے جاننا۔ بالفاظ دیگر: معرِّف معرَّف کی حقیقت نہ ہو؛ لیکن حصولِ علم کا ذریعہ ہو، جیسے: انسان کے تصور کے لیے’’ضاحک‘‘ کو تصور کریں ، اور انسان کے حصولِ علم کا ذریعہ بھی بنائیں ۔ تصَوُّر بوَجہِہ: کسی چیز کو اس کی عرضیات کے ساتھ جاننا۔ بالفاظ دیگر: معرِّف معرَّف کی نہ حقیقت ہو اور نہ ہی حصولِ علم کا ذریعہ بھی ہو، جیسے: انسان کے تصور کے لیے ’’ضاحک‘‘ تصور کریں ؛ لیکن حصولِ علم کا ذریعہ نہ بنائیں ۔ (ملخص من شروح سلم العلوم) ملحوظہ: ذاتِ باری تعالیٰ کا تصور: بالکنہ اور بکنہہ ممکن نہیں ؛ اس لیے کے وہ ذات بسیط ہے اس کی ذاتیات نہیں ۔ ہاں اس کا تصور: بالوجہ یا بوجہہ ممکن ہے اور ممدوح بھی؛ بلکہ معرفتِ الٰہی میں معین ہے اور وصول الی اللہ کا اہم ذریعہ ہے، بایں طور پر کہ اس کی عرضیات یعنی صفات میں غوروخوض کیا جائے۔