دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
کالحیَوانِ والناطقِ؛ فإما أنْ تکونَ مرآۃً لملاحَظۃِ ذلکَ الشيئِ، أوْ قطعَ النظرِ عن مرآتیَّتہا، فالأوّلُ: ہو العلمُ بالکنہِ، والثاني: ہو العلمُ بکنہہِ، ومنہُ تمثُّل نفسِ الشيئِ في الذِّہنِ۔ وإذا تصوَّرنا الشيئَ کالإنسانِ بالعرضیاتِ، کالضاحکِ فإما أن تکونَ مرآۃً لملاحظۃِ ذلکَ الشيئِ، أوْ قطع النظرِ عن مرآتیَّتہا، فالأوّلُ: ہو العلم بالوجہِ، والثاني: ہو العلمُ بوجہہِ۔ (سُلَّم العلوم مع حاشیہ إنطاق العلوم) تصور کی چار قسمیں ہیں :تصور بالکنہ،تصور بکنہہ، تصور بالوجہ،تصور بوجہہ۔ مان لیجیے کہ، جب ہم کسی شیٔ (ذات) مثلاً انسان کا تصور اُس کے ذاتیات (جنس وفصل) مثلاً حیوانِ ناطق سے کریں ، تو (یہ تصور دو حال سے خالی نہیں :) یاتو یہ ذاتیات اُس کے حصولِ علم کا ذریعہ ہوں گی یا اُن کا آلۂ علم ہونا پیشِ نظر نہ ہوگا (مثلاً کوئی شخص حیوانِ ناطق کو ذریعہ بنائے بغیر انسان کو کسی اور طریقہ سے جان لے، جیسے اس پر نظر پڑی اور ساتھ ہی اس کی ذاتیات بھی سمجھ میں آگئیں )… پہلی صورت ’’تصور بالکنہ‘‘ ہے، اور دوسری صورت ’’تصور بکنہہ‘‘ ہے۔ اور جب ہم کسی شیٔ (ذات) مثلاً انسان کا تصور اُس کے عرضیات مثلاً ضاحک سے کریں ، تو (یہ تصور دو حال سے خالی نہیں :) یاتو یہ عرضیات اُس شیٔ کے حصولِ علم کا ذریعہ ہوں گی یا اُن کا آلۂ علم ہونا پیشِ نظر نہ ہوگا… پہلی صورت ’’تصور بالوجہ‘‘ ہے اور دوسری صورت ’’تصور بوجہہ‘‘ ہے(۱)۔ (۱) کسی بھی چیز کا تصور یاتو ذاتیات کے ذریعے کیا جائے گا یا عرضیات کے ذریعے۔ پھر ہر صورت میں ان ذاتیات اور عرضیات کو علم کا ذریعہ بنایا جائے گا یا نہیں ؟ پس کل چار صورتیں ہوں گی: =