دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
وجہ سے؛ بہ شرطے کہ معنیٔ اصلی کو مراد لینے سے باز رکھنے والا کوئی قرینہ بھی ہو۔ فائدہ: استعارہ در حقیقت مختصر تشبیہ ہے جو تشبیہ سے بلیغ تر ہے، جیسے: رأیتُ أسداً في المدرسۃِ، کہ اِس کی اصل: رأیتُ رجلاً شجاعاً کالأسد في المدرسۃِ ہے، جس میں رجلاً مشبَّہ، کاف اَداتِ شبہ اور شجاعت وجہِ شبہ کو حذف کر دیا گیا ہے، اور لفظِ اسد سے (بجائے حیوانِ مفترِس کے) رجلِ شجاع مراد ہے، اِس کا قرینہ: في المدرسۃِ ہے۔ استعارے کے ارکان تین ہیں : مُستَعار منہ یعنی مشبَّہ بہٖ، مستعار لہٗ یعنی مشبَّہ اور مستعار یعنی لفظِ منقول۔ المَجَازُ المُرْسَلُ: ہو الکلمۃُ المستعملۃُ قصداً في غیرِ معناہا الأصليِّ، لمُلاحظۃِ علاقۃٍ غیرِ المشابھۃِ، معَ قرینۃٍ دالّۃٍ علی عدمِ إرادۃِ المعنی الأصليِّ، نحو: {یجعلونَ أصابعہمْ [أي أناملہم] في آذانہمْ}۔(جواہر: ۱۷۸) مجازِ مرسَل: وہ کلمہ ہے جو بالقصد معنیٔ وضعی کے عِلاوہ کسی دوسرے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہو، تشبیہ کے عِلاوہ کسی اَور مناسَبت (کُلِّیَّت وجزئیّت، سببِیَّت ومسبِّبیت) کی وجہ سے، بہ شرطے کہ وہاں پر معنیٔ اصلی کو مراد لینے سے مانع کوئی قرینہ بھی ہو، جیسے: {یَجعَلُوْنَ أَصَابِعَہُمْ [أي أناملہم] فِي آذَانِہِمْ}دیتے ہیں انگلیاں (اوپر کے پوروں کو)اپنے کانوں میں مارے کڑک کے موت کے ڈرسے۔ (مجازِ مرسل کے علاقے: باب المیم کے تحت ’’مجاز‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں )۔