دستور الطلباء |
لمی و فن |
|
مجاز یاتو لفظ میں ہوگا، یا نسبت میں ہوگا،اورمعنیٔ موضوع لہٗ و معنیٔ مستعمل فیہ میں تشبیہ کا علاقہ ہوگا یا غیر تشبیہ کا؟ اِن اُمور کو دیکھتے ہوئے مجاز کی چار قِسمیں ہیں : استعارہ، مجازِ مرسَل؛ استعارۂ تمثیلیہ، مجازِ مرکب مرسَل۔ الاسْتِعَارَۃُ: ہي استعمالُ اللفظِ في غیرِ ماوُضعَ لہُ لعلاقۃِ المشابہۃِ بینَ المعنی المنقولِ عنہُ، والمعنی المستعملِ فیہِ، معَ قرینۃٍ صارفۃٍ عن إرادۃِ المعنی الأصليِّ۔ والاستعارۃُ لیستْ إلا تشبیہاً مختصراً؛ لٰکنہا أبلغُ منہُ، کقولکَ: رأیتُ أسداً في المدرسۃِ، فأصلُ ہٰذہ الاستعارۃِ: رأیتُ رجلاً شجاعاً کالأسدِ في المدرسۃِ، فحُذفَتِ المشبَّہ (رجلاً)، والأداۃ (الکاف)، ووجہُ الشبہِ (الشجاعۃُ)، وألحقتَہُ بقرینۃِ المدرسۃِ، لتدلَّ علی أنک تریدُ بالأسدِ شجاعاً۔ وأرکانہُ ثلاثۃٌ: مستعارٌ منہُ، وہو المشبہُ بہِ؛ مستعارٌ لہُ، وہو المشبَّہُ؛ ومستعارٌ، وہو اللفظُ المنقول۔(جواہر البلاغۃ:۱۸۳) استعارہ: وہ مجاز ہے جس میں لفظ کو معنیٔ موضوع لہٗ کے عِلاوہ میں استعمال کیا گیا ہو، حقیقی اور مجازی معنیٰ کے درمیان معنوی طور پر (مشابَہت کے) ربط کی =کے گھر میں سمندر نہیں سماسکتا، جب کہ کنایہ کی مثال میں کثیر الرماد کے اصلیٰ معنیٰ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں ، کہ واقعی زید کے گھر میں راکھ زیادہ ہو۔ علمِ معانی میں تین چیزوں کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے: استعارہ، مجاز اور کنایہ؛ لیکن استعارہ کو سمجھنے کے لیے تشبیہ کا سمجھنا ضروری ہے، بہ ایں وجہ ’’علمِ بیان‘‘ میں طرداً للباب تشبیہ سے بھی بحث کی جاتی ہے۔