Deobandi Books

دستور الطلباء

لمی و فن

100 - 410
…………………………………………………………
                                           
	[۱]یہ تینوں قسمیں مناطقہ کی دلالتِ التزامی کے قبیل سے ہیں ، جیسا کہ صاحبِ مختصر المعانی کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے: ثمّ اللفظ المراد بہ لازم ماوضع لہ إن قامت القرینۃ علیٰ عدمِ إرادتہ، فمجاز…۔ جس کے لیے پہلے دلالت اور اُس کی قِسموں کو سمجھ لیں ۔
	دلالت کہتے ہیں : کسی چیز کا اِس طور پر ہونا کہ اُس کے جاننے سے دوسری چیز کا علم ہو۔ 
	اب اُس لفظ کی دلالت یاتو پورے معنیٔ موضوع لہٗ پر ہوگی، جیسے: انسان کی دلالت حیوانِ ناطق پر، یہ دلالتِ مطابقی ہے۔ یا معنیٔ موضوع لہٗ کے جز پر ہوگی، جیسے: انسان کی دلالت صرف حیوان پر یا صرف ناطق پر،یہ دلالتِ تضمنی ہے۔ یا تو اُس لفظ سے معنیٔ موضوع لہٗ کے عِلاوہ کسی اَورلازمی معنیٰ کو مراد لیا گیا ہو، جیسے: انسان بول کر ضاحک مراد لینا، یا اَسد (شیر) بول کر زید مراد لینا،یہ دلالتِ التزامی ہے۔
	گویا دلالتِ التزامی میں لفظ بول کر ما وُضع لہٗ (معنیٔ موضوع لہٗ) کے عِلاوہ معنیٔ لازمی کو مراد لیا جاتا ہے، اب اگر معنیٔ موضوع لہٗ کے مراد نہ لینے پر کوئی قرینہ بھی موجود ہوتو وہ ’’کنایہ‘‘ ہے؛ ورنہ تو ’’مجاز‘‘ہے۔ پھر مجاز میں اگر معنیٔ موضوع لہٗ اور معنیٔ مستعمل فیہ کے درمیان تشبیہ کا عَلاقہ ہے، تو اُسے ’’استعارہ‘‘ کہتے ہیں ۔ 
	[۲]یہ تینوں چیزیں بلاغت کے علمِ بیان سے تعلُّق رکھتی ہیں ؛ کیوں کہ اصطلاح میں علمِ بیان نام ہے اُن اصول اور قواعد کا جو ایک معنیٰ کو چند ایسے طریقوں (تشبیہ، مجاز، کنایہ) کے ذریعے تعبیر کرنے کا ڈھنگ سکھائے، جس میں سے بعض دوسرے بعض سے معنیٔ مرادی پر دلالت کرنے میں بہ حیثیتِ وضاحت مختلف ہوں ، جیسے: اگر ’’زید کا سخی ہونا‘‘ بتانا مقصود ہے، توکبھی اُسے بہ طریقِ تشبیہ زیدٌ کحاتم =(زید حاتم کی طرح سخی ہے) کہا جاتا ہے، اور کبھی بہ طریقِ مجاز رأیت بحراً في دارِ سعد(میں نے سعد کے گھر میں ایک سمندر (طلحہ)کو دیکھا)، اور کبھی بہ طریقِ کنایہ زیدٌ کثیر الرماد (زید چولہے کی زیادہ راکھ والا ہے) کہا جاتا ہے۔
	اِن تینوں مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ: تشبیہ کی مثال ’’زید کحاتم‘‘ میں حاتم اپنے اصلی معنیٰ (ذات حاتم)میں مستعمل ہے، جب کہ مجاز کی مثال میں بحر(سمندر)اور کنایہ کی مثال میں کثیر الرماد (زیادہ راکھ والا ہونا)اپنے اصلی معنوں میں مستعمل نہیں ہیں ۔ ہاں ! مجاز اورکنایہ کے درمیان یہ فرق ہوتا ہے کہ، مجاز کی مثال میں بحر(سمندر)کا حقیقی معنیٰ مراد نہیں لیے جاسکتے، اِس قرینے سے کہ سعد =


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 2 0
2 دَسْتُورُالطُّلَبَاء 2 1
3 تفصیلات 3 2
4 علمی وفنی اِصطلاحات کا مجموعہ 4 2
5 فہرست 6 2
6 تقریظ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری(دامت برکاتہم العالیہ) شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند 32 2
7 تقریظ حضرت اقدس مولانا محمد یونس صاحب تاجپوری دامت برکاتہم (شیخ الحدیث مدرسہ امدادالعلوم وڈالی، گجرات) 33 2
8 پیش لفظ 34 2
9 خطبۃ الکتاب 43 2
10 باب الألف 44 1
119 باب الباء 77 1
122 باب التاء 87 1
123 باب الجیم 124 1
124 باب الحاء 130 1
125 باب الخاء 157 1
126 باب الدال 162 1
127 باب الذال 172 1
128 باب الراء 174 1
129 باب الزاء والسین 185 1
130 باب الشین 193 1
131 باب الصاد 210 1
132 باب الضاد 223 1
133 باب الطاء والظاء 229 1
134 باب العین والغین 233 1
135 باب الفاء 259 1
136 باب القاف 263 1
137 باب الکاف 291 1
138 باب اللام 304 1
139 باب المیم 312 1
140 باب النون 374 1
141 باب الواو 387 1
142 باب الہاء والیاء 395 1
143 عزائم برائے طلبہ 399 1
144 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 403 143
145 اہم مراجع ومصادر 405 143
146 ادارۃ الصدیق ڈابھیل کی گراں قدر مطبوعات 407 143
Flag Counter